استاد محترم آغا سید جواد نقوی (مشرب ناب – شمارہ 108)
بس اگر کوئی اپنی قوت
کو خود ہی نابود کر بیٹھے تو وہ حشرات الارض سے بد ترہے۔
لشکرِ شہوت کی یلغار:
ہماری موجودہ نسل ہوس زدہ اور شہوانی تہذیب کی زد میں آگئی ہے جس کے بارے میں کہہ
سکتے ہیں کہ یہ نسل تاریخ میں سب سے زیادہ قابل رحم نسل ہے۔ انسانی تاریخ میں
انسان اتنا زیادہ شہوتوں کی زد میں پہلے کبھی نہیں آیا جتنا آج ہے۔عورتوں اور
مردوں سب کے اُوپر شہوت گھٹا بن کر چھائی ہوئی ہے آپ پوری دنیا میں بغیر کسی
قومی، مسلکی، علاقائی اور رنگ کی تفریق کے سب کے اندر شہوت زدگی اور ہوس زدگی کی
ایک مشترک حالت پائیں گے۔ تاریخ میں ایسے دور گزرے ہیں جب وحشی اور درندہ لشکروں
نے زندہ انسانوں کے اُوپر گھوڑے دوڑا کر انہیں پائمال کردیا اور خون کی ندیاں
بہادیں، مثال کے طور پر مغلوں کا لشکر جس علاقے پر حملہ کرتا لاشوں کے ڈھیر لگا
دیتا اور جب تک ان کے گھوڑوں کے سُم خون کی ندیوں میں ڈوب نہ جاتے قتل عام بند
نہیں کرتے تھے۔یہ لشکر پوری آبادیاں، شہر اور ملک ویران کرتا اور اس قتل عام میں
لذت محسوس کرتا۔ یہ لوگوں کے سر کاٹ کے برج بنادیتا، جس طرح ابھی داعش کا لشکر
جہاں جاتا ہے تباہی پھیلا دیتا ہے۔ اس طرح کے وحشی درندے ہر دور میں رہے ہیں۔ اس
کے باوجود ان درندہ صفت لشکروں سے کچھ نہ کچھ بچ جاتے تھے۔ بقیۃ السیف یعنی تلوار
سے بچے ہوئے جن میں سے کچھ وہاں موجود نہیں ہوتے تھے یا کہیں چھپ جاتے تھے بہرحال
ان درندہ صفت لشکروں سے کچھ نہ کچھ حصہ بچ جاتاتھا۔
لیکن اس وقت مشرق و مغرب میں جو یلغار ہے اس سے ایک بھی نہیں بچے گا اور ابھی کوئی
بھی نہیں بچ پایا۔ ہم اُسی کو محفوظ سمجھتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں پتہ نہیں ہے
ہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے دوسروں کو محفوظ سمجھتے ہیں جیسے کوئی بھوکا ہو اور ہمیں
معلوم نہ ہو تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیراب ہے۔
شرمناک جرائم:
شہوت انگیزیاں اتنی تحریک ہورہی ہیں، کہ اس شہوت انگیزی میں عورتوں کو بھی اپنے
اوپر کنٹرول نہیں ہے اور مردوں کو بھی اپنے اوپر کنٹرول نہیں ہے۔ ایک عورت کا شوہر
بھی ہے بچے بھی ہیں اس کے باوجود اتنے شہوت آمیز مناظر دیکھتی ہے کہ اس کا اپنے
اوپر کنٹرول نہیں رہتا اور حتماً کسی کے ساتھ روابط کرتی ہے۔ نامحرموں کے آپس میں
روابط اتنے کثرت سے ہیں کہ اب ان کی قباحت ختم ہوگئی ہے جیسے رشتہ دار اور کزن کے
تعلقات ہیں۔ پاکستان میں شہوت انگیزی کا حال یہاں تک جاپہنچا ہے کہ گزشتہ ایک
مہینے کے قومی اخباروں میں تین سے چار واقعات ایسے آئے ہیں جن میں باپ نے اپنے
بچوں کے ساتھ شہوت انگیزی کی ہے۔ ایک ماں نے کیس کیا ہے کہ باپ نے نابالغ بیٹیوں
کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے ہیں۔ اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایک مولانا نے اپنے
شاگرد کے ساتھ شہوت رانی کی ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو خبروں میں آجاتے ہیں لیکن
واقعات اتنے ہی نہیں ہیں جو خبروں میں آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو پکڑا گیا ہے
لیکن جو اپناجرم چھپا لیتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ بعض ماں باپ کو پتہ چل
جاتا ہے کہ اُن کی اولاد کے ساتھ یہ جُرم ہوا ہے لیکن وہ پردہ ڈال لیتے ہیں، عزت
کی خاطر اپنا محلہ اور مکان بدل لیتے ہیں، پولیس کو نہیں بتاتے اور اخباروں میں
نہیں دیتے یا بعض دفعہ بچے ہی گھروں میں نہیں بتاتے۔ ہمارے معاشرے میں منافقت اتنی
ہے کہ جرم پر کوئی افسوس نہیں ہوتا ساری کوشش یہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے۔
لوگ جرم کا لوگوں کو پتہ چلنے سے ڈرتے ہیں لیکن جرم سے نہیں ڈرتے۔ شادی شدہ عورت
نامحرم کی دوست بنی ہوئی ہے اور خیال یہ ہے کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے۔ یہ ماحول گھر
گھر شروع ہو رہا ہے کہ لوگوں کو پتہ چلنا جرم ہے اور تعلقات رکھنا جرم نہیں
سمجھتے۔ جب شہوت انگیزی کا ماحول بنائیں گے جب میڈیا آزاد کریں گے جب موبائل ہر
بچے کو دے دیں گے روابط آزاد کر دیں گے، جب اخلاقیات نابود ہو جائیں گے تو ایسے
کاموں کے اندر چھوٹے بڑے سب ملوث ہوجاتے ہیں۔
بدترین پستی:
ہم جنس بازی جانور بھی نہیں کرتے۔ علامہ اقبال ؒ نے سیاست دانوں کے بارے میں لکھا
ہے کہ میں نے کتے کو کتے کا ویری نہیں دیکھ الیکن انسان انسان کا دشمن ہوتاہے۔ کتا
لومڑی کا اور بھیڑیے کا دشمن ہو سکتا ہے اور بلی کا مخالف ہو سکتا ہے لیکن کتا کتے
کا مخالف نہیں دیکھا۔ انسان جب پست اور گٹھیا ہو جائے تو یہ کام کرتا ہے۔ علامہ ؒ
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے کتے کو کتے کے پاؤں چاٹتے نہیں دیکھا لیکن انسان
کو انسان کے سامنے جھکتے ضرور دیکھا ہے، کتے کو کتے کا غلام نہیں دیکھا لیکن انسان
کو انسان کا غلام دیکھا ہے۔ یہ بات علامہ اقبال ؒ کے کلام میں ہے۔ اسی طرح ہم جنس
بازی کوئی جانور نہیں کرتا۔ آپ نَر کتے کو نَرکتے کے ساتھ ہم جنس بازی کرتے ہوئے
نہیں دیکھیں گے لیکن انسان یہ کام کرتا ہے اور یوں وحشی جانوروں سے بھی پست ہوجاتا
ہے۔
خود لذت کے قبیح
نتائج:
خود لذت اوراپنے ساتھ جنس بازی انسان کوکمزور اور نابود کردیتی ہے۔ انسان اگر ایسے
کسی شیطانی عمل میں مبتلا ہوا ہے تو اس کے درجہ ذیل اثرات اور نتائج سامنے آتے
ہیں۔
(۱)انسان میں خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے اور یہ کسی کے سامنے آنکھ اُٹھا کر بات
نہیں کرسکتا۔
(۲)تعلیم میں کامیابی ختم ہوجاتی ہے اور انسان درس پڑھنے اور امتحان دینے کے قابل
نہیں رہتا ہے۔
(۳)انسان کے اندر معاشرتی حس ختم ہوجاتی ہے اور دوسروں کے ساتھ محبت ختم ہوجاتی
ہے۔
(۴) انسان جسمانی طور پر ناتوان ہوجاتاہے اورخود اپنے اندر سے
ہی نابود ہوجاتا ہے۔
(۵)انسان ارادی طور پر ضعیف ہو جاتا ہے۔
(۶) انسان سے عبادت بھی نہیں ہوسکتی۔
(۷)شادی کے قابل نہیں رہتا اور اگرشادی کر بھی لے تو اس سے بچے کبھی پیدا نہیں
ہوں گے۔
(۸)یہ آخر کار جرائم کی دنیا میں چلے جاتے ہیں یا جب اپنے آپ کو ہر چیز سے عاجز
سمجھتے ہیں تو خود کشی کو راہ حل کے طور پر اپنے لیے تجویز کرتے ہیں۔
معجزاتی قوّتِ انسانی:
خدانے انسان کے اندر فطرت رکھی ہے اور انسان کی فطرت قوی ہے۔ فطرت کے اندر تسخیر
کرنے کی قوت ہے لیکن یہ طاقت شہوتوں سے کمزور ہوتی ہے اور مرجاتی ہے۔خدا نے عورت
مر د سب کو ارادہ دیا ہے جس کے اندر قوت رکھی ہے ارادہ یعنی منبع ِقوت و طاقت،جس
طرح خدا نے ایٹم کے اندر طاقت رکھی ہے۔ایٹم ایک چھوٹا سا ذرّہ ہوتا ہے جس کی طاقت
اگر آزاد ہوجائے تو تباہ کن ہے اس سے زیادہ قوت انسان کے ارادے میں ہے لیکن یہ
قوت ارادی آفات کی زد میں آنے سے نابود ہوجاتی ہے۔ہوس اور شہوت قوت ِ ارادی کو
سب سے زیادہ کمزور کرتی ہے۔
یلغار شہوت، خود لذتی اور ناتوانی