مفتی جعفر حسین کی کتاب "سیرت امیرالمومنین جلد اول" سے اقتباس مضمون "مولد و منشا"
خطہ عرب اور صحرائی زندگی
"خطہ عرب " براعظم ایشیا کے جنوب مغرب میں دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے اس کے شمال میں مملکت
شام واقعہ ہے اور مغرب میں بحر احمر مشرق میں بحر عمان و خلیج فارس اور جنوب میں بحر ہند کی نیلگوں
موہیں متلاطم ہیں۔ بحر احمر کا ساحلی علاقہ بنجر اور شور ہے اور ساحل سے ہٹ کر خشک پہاڑوں ریتیلے
ٹیلوں اور کف دست ریگستا نوں کا سلسلہ حد نظر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ریگستانی وصحرائی خطہ حجاز کہلاتا ہے ۔ اس خطہ میں نہ زراعت و کاشتکاری کی کوئی صورت تھی اور نہ
سیرابی کا کوئی سامان تھا۔ اگر بارش ہوئی
تو پہاڑوں میں بیچ وخم کھاتی ہوئی وادیوں
میں پانی بہہ نکلا یا کسی سیرابی حصہ میں
گڑھوں کے اندر جمع ہوگیا۔ ورنہ میلوں تک کہیں
پانی کا نام ونشان نہ تھا۔ ایسے خشک او بے
گیاہ علاقہ میں جہاں ہر طرف شور و ویرانہ بنجر اور بہیڑ زمین اور دھوپ میں تپتے ہوۓ پہاڑہوں جہاں
نہ پانی ہو اور نہ زندگی دمعیشت کا کوئی سامان وہاں کسی آبادی کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا۔ البتہ حدود حرم کے باہر عمالقہ صحرائی زندگی بسر کرتے تھے ۔ ان صحرا
نوردوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہوتا تھا بلکہ گھاس اور پانی کی تلاش میں باد سموم
کے جھلسادینے والے جھونکوں سے ٹکراتے ہوئے صحراؤں میں سرگرداں رہتے تھے اور جہاں
پانی اور تھوڑی بہت سربزی وشادابی نظر آتی وہاں اتر پڑتے اور جب پانی اور چو پاؤں
کے چرنے کا چارا ختم ہو جاتا تو آب وگیاہ
کی تلاش میں آگے بڑھ جاتے ۔
وادی بطحاء میں مستقل آبادی و داستان حضرت ابراہیمؑ و اسماعیل
اس وسیع ریگستان کی وادی بطحا میں مستقل آبادی کی ابتدا ذریت ا براہیمی سے
ہوئی۔ حضرت ابراہیم ؑ طوفان نوحؑ سے ۱۰۸۱ برس بعد سرزمین بابل میں پیدا ہوئے باپ کا انتقال بچپنے
میں ہو گیا۔ چچا نے تربیت کی جو آوار کھلاتا تھا۔ آوار کے معنی صنم کدہ کے نگران
اعلی کے ہیں اور اس لفظ نے بعد میں آزر کی
شکل اختیار کرلی ۔ حضرت ابراہیم جو آزر کے
ہاں رہتے سہتے تھے ایک ایسے معاشرہ میں پلے بڑھے جس میں بت تراشے جاتے اور پوجے
جاتے تھے اور سورج ، چاند اور ستاؤں کی بھی پرستش ہوتی تھی اور حاکم وقت معبود کا درجہ حاصل کئے ہوۓ تھا ۔ مگر اس
صنم پرستی و صنم تراشی کے مرکز میں رہتے
ہوئے آپ بچپن سے بت پرستی کے خلاف اور مشیر کا نہ راہ و رسم سے بیزار تھے۔ آپ نے اپنی قوم کی راہ و روش پر کڑی نکتہ چینی کی اور اصنام پرستی کی
مذمت کرتے ہوۓ انہیں خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دی مگر کسی نے ان کی
آواز پر لبیک نہ کہی بلکہ بتوں ہی کو اپنا
کرتا دھرتا سمجھتے اور انہی کے سامنے سر عبودیت خم کرتے رہے، حضرت ابراہیم نے انہیں بت پرستی سے
کنارہ کش ہوتے نہ دیکھا تو چاہا کہ بتوں کی بے بسی و درماندگی کا عملاً ثبوت پیش کر کے انہیں سمجھائیں کہ اصنام پرستش کے قابل ہرگز نہیں ہیں۔ آپ اس کے
لئے موقع کی تلاش میں تھے کہ انہی دنوں میں اہل شہر مراسم عید بجالانے کے لئے صحرا
میں جمع ہوئے۔ آپ نے شہر کو خالی پا یا تو صنم کدہ کا رخ کیا اور ایک بڑے بت کے
علاوہ تمام چھوٹے بڑے بتوں کو توڑ پھوڑ
دیا اور جس تبر سے بت توڑے تھے اسے بڑے بت
کی گردن میں آویزاں کر کے باہر نکل آئے۔ جب اہل شہر پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ بت خانہ کا نقشہ بگڑا ہوا ہے اور بتوں کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے
ہیں۔ انہوں نے مستفسرانہ نگا ہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور کہا کہ ہونہ ہو یہ
ابراہیم کی کارستانی ہے جو برا بر ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو بلا یا اور کہا کہ یہ
تم نے کیا کیا؟ آپ نے کہا :
"بل فعلہ کبیرھم ھذا فسئلوھم ان کانواینطقون"
"یہ حرکت ان بتوں کے بڑے کی ہے اگر
یہ بول سکتے ہوں تو انہی سے پوچھ لو"
انہوں نے حضرت ابراہیم کی زبان سے انہونی بات سنی تو کہنے لگے کہ اے ابراہیم کیا
بت بھی بولا کرتے ہیں ؟ فرمایا کہ جونہ زبان ہلاسکیں اور نہ اپنا بچاؤ کرسکیں وہ
کسی اور کے کیا کام آسکتے ہیں کہ تم انہیں معبود قرار دے کر ان کے آگے جھولیاں پھیلاتے اور انہیں سجدے کرتے ہوں۔
ان بت پرستوں کا عقیدہ تو یہ تھا کہ بارش برسائیں تو بت ،کھیتیاں اگائیں توبت ،
رزق و روزی کا سامان کریں تو بت اور مصیبت و آفت سے بچائیں تو بت۔ اور دھران کی بے
بسی و بیچارگی کا یہ عالم کہ نہ حملہ آور کا ہاتھ روک سکے اور نہ زبان سے کچھ بول
ہی سکے اگر ان صنم پرستوں میں عقل و شعور ہوتا تو وہ حضرت ابراہیم کے اس حسی
ومشاہداتی استدلال پر غور کرتے مگر غور وفکر کے بجائے وہ غم وغصہ میں پیچ و تاب
کھانے لگے اور انہیں بت شکنی کے جرم میں نمرود کے سامنے پیش کیا۔ اس نے جواب طلبی
کرتے ہوئے کہا کہ نہیں بتوں پر ہاتھ اٹھانے کی جرات کیونکر ہوئی اور پھر تمہارے سر
میں ہوائے تکبر اتنی بھر گئی ہے کہ تمھیں میرے الوہی اقتدار سے بھی انکا رہے فرمایا کہ تمہارے
بت ہیں ہی کیا۔ انسانی ہاتھوں کے ترشے ہوئے ضعیف سے ضعیف مخلوق سے بھی ضعیف تر اور پھر تمہیں خدا
کیو تک تسلیم کروں جب کہ تم اپنی موت و زیست پر بھی قادر نہیں ہو حضرت ابراہیم کے
اس بیا کانہ رویہ کو دیکھ کر نمرود کے تیور بدلے، شہنشاہیت کا دبدبہ حکومت کا شکوہ
اور عوام کا زور حق کی آواز کو دبانے کے لئے
حرکت میں آگیا اور انہی کے چچا نے انہیں پتھروں سے کچل دینے دھمکی دی اور نمرود نے حکم دیا کہ انہیں زندہ جلا کر خاکستر کر دیا
جائے ۔ چنانچہ انہیں جلا دینے کے لئے بڑے پیمانے پہ آگ روشن کی گئی ۔ جب انگارے
بھڑک اٹھے اور شعلے بلندیوں کو چھونے لگے تو انہیں آگ میں جھونک دیا گیا۔ مگر ان
کا ایک بال بھی بیکا نہ ہو سکا۔ گویا آگ بھی کھلا ہوا لالہ زار اور لہلہاتا ہوا
گلزار تھا ۔ اس اعجاز کو دیکھ کر نرود دم بخودرہ گیا مگر اس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی
نہ ہوئی۔ اس نے حکم دیا کہ ان کے مال مویشی ضبط کر کے انہیں جلا وطن کر دیا جاۓ حضرت ابراہیم
نے یہ شاہی فرمان سنا تو نمرود سے کہا کہ
تمہیں میرے مال مویشی چھین لینے کا کوئی حق نہیں ہے کہا کہ یہ چیزیں تم نے ہماری مملکت میں
رہ کہ پیدا کی ہیں ۔فرمایا کہ پھر میں نے جتنی عمر تمہارے شہر میں صرف کی ہے وہ مجھے
واپس پلٹادو اور یہ مال لے لو۔ نمرود سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ کہا کہ ان کا مال
انہی کے پاس رہے اور انہیں شہر بدر کر دیا
جائے ۔
حضرت ابراہیم اپنی اہلیہ جناب سارہ اور اپنے بھتیجے حضرت
لوط ؑ کو لے کر سر زمین بابل سے نکل کھڑے ہوئے اور حلب دمشق سے ہوتے ہوئے فلسطین
میں چلے آئے جو اس دور میں کنعان کہلاتا
تھا۔ فلسطین میں آپ کامسکن یروشلم سے گیارہ کے میل کے فاصلہ پر مقام حبرون تھا۔ آپ
نے کچھ عرصہ یہاں گزارا پھر دعوت توحید کے لئے مصر تشریف لے گئے۔ شاہ مصر رقیون نے
آپ کے ہمراہ جناب سارہ کو دیکھا تو اس کی نیت میں فتور پیدا ہوا۔ اس نے دست درازی
کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر اس کا بڑھا ہوا ہاتھ شل ہوکر وہیں کا وہیں رہ گیا۔ یہ صورت
حال دیکھ کر اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا معافی مانگی اور اس جرم کی تلافی کے
لئے کچھ تحائف پیش کئے جن میں ایک کنیز ہاجرہ نامی بھی شامل تھی جو بعد میں خلیل
خدا کے حرم میں داخل ہوئیں اور ان پرستاران توحید کی مقدس جماعت میں ایک فرد خاندان کی حیثیت سے شامل ہوگئیں۔ مؤرخ طبری نے
لکھا ہے کہ باجرہ ، فرعون مصر علوان ابن سنان کی بیٹی تھیں حضرت ابراہیم نے مصر سے
واپسی کے بعد جرون کو اپنا مستقل مسکن قرار دے لیا اور اپنے پروردگار سے اولاد کی
دعا کی تاکہ مقصد کی تکمیل میں ان کا ہاتھ بٹا سکے ۔ قدرت نے ان کی دعا قبول کی
اور چھیاسی برس کی عمر میں ہاجرہ کے بطن
سے پہلا بیٹا اسمٰعیل عطاء کیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد جناب سارہ کے بطن
سے جو اولاد سے مایوس ہو چکی تھیں، اسحاق
پیدا ہوئے۔
جب جناب سارہ کی گود ہری ہوئی تو انہوں نے حضرت ابراہیم سے
کہا کہ آپ ہاجرہ اور اسمٰعیل کو کہیں اور منتقل کر دیں۔ حضرت ابراہیم نے اس پر
آمادگی ظاہر کی اور ان دونوں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے قدرت کی رہنمائی او ر مشیت کی
کارفرمائی انہیں صحرائے حجاز کے ایک دیران گوشے میں لے آئی ۔اگرچہ یہ ویرانہ
انسانی آبادی اور زندگی کے سرو سامان سے یکسر خالی تھا مگر کار فرمائے قدرت نے روز
ازل سے یہ طے کر رکھا تھا کہ اسے آبادی سے
بیگان نہ رہنے دے گا بلکہ اسے ام القری ٰ(آبادیوں کا سرچشمہ) قرار دے گا۔ چنانچہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں آبادی کانقش ابھرا اور آپ نے جناب با جرہ اور اپنے فرزند اسمعیل کو
وہاں پر ٹھہرا دیا اور اس طرح قدرت نے اس بنجراد خشک وادی کو آبادی سے روشناس کیا۔ حضرت ابراہیم نے فلسطین
سے نکلتے وقت جناب سارہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان دونوں کو کسی محفوظ مقام پر
پہنچا کر فوراً واپس ہوں گے ، چنا نچہ خلیل خدا ان دونوں کو تنہا چھوڑ کر واپسی کے
ارادہ سے پلٹے لیکن فرمانبردار و وفا
شعار بیوی اور نور نظر کی جدائی دل کو متاثر کئے بغیرنہ رہ سکی ۔ جب کو ہ کدار کے موڑ پر پہنچے تو پلٹ
کر ہا جرہ و اسمٰعیل کی طرف دیکھا۔ ان کی تنہائی وبے سرو سامانی پر
نظر کی اور گڑگڑا کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:
"ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک
الحرم ربنا لیقیمو الصلوٰۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات
لعلھم یشکرون"
"پروردگارا! میں نے تیرے مقدس گھر کے پاس ایسی سرزمین پر جہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی اپنی کچھ
ذریت کو لا بسایا ہے اے ہمارے پروردگار تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو
انکی طرف جھکادے اور ان کیلئے پھلوں کی روزی کا سامان کر تاکہ وہ تیرے شکرگزار ہوں"
خلیل خدا کو قدرت کی کارسازی پر اطمینان تو تھا
ہی پھر بھی اس دعا نے قلب مطمئن میں اطمینان کی لہر دوڑا دی اور آپ جدھر سے آئے
تھے ادھر روانہ ہوگئے۔ جناب ہاجرہ نے چادر تان کر سایہ کیا اور اسمٰعیل عہ کو لے
کر اس کے نیچے بیٹھ گئیں۔ اگرچہ ہر طرف خاموشی اور سناٹا تھا مگر یہ بلند ہمت
خاتون ذرا ہراساں نہ ہوئیں اور اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس صحرائی زندگی کو خندہ
پیشانی کے ساتھ گوارا کرلیا۔ نہ ماتھے پرشکن ڈالی اور نہ دل میں تشویش کو راہ دی۔
اس صحرائے لق ودق میں پانی کی ایک چھا گل
آپ کے ہمراہ تھی جو ایک آدھ دن کے بعد خالی ہوگئی ۔اب پانی کی فکر ہوئی ۔ کچھ دیر
صبر وضبط سے کام لیا مگر جوں جوں سورج کی تپش بڑھنے لگی ۔ پیاس کی شدت بھی بڑھنے
لگی ۔ بچے کے سنولائے ہوئے چہرے پر نظر پڑتے ہی جناب با جرہ بے تاب ہوگئیں اور اس خیال سے کہ شاید کسی سمت
پانی نظر آجاۓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ صفا مروہ کی چوٹیوں پر چڑھ کر ادھر ادھر
دیکھا اور ان پہاڑیوں کے درمیان سات چکر کاٹے لیکن اس دوڑ دھوپ کے باوجود کسی سمت
پانی نظرنہ آیا۔ جب پیاس اور تھکن سے بے حال ہو کر واپس آئیں تو دیکھا کہ سنگریزوں
سے ڈھکی ہوئی زمین سے پانی رس رہا ہے ۔ کنکروں پتھروں کو ہٹایا تو تپتے ہوئے ریگستان
کے سینہ سے سرود شیریں پانی کا دھارا بہہ
نکلا۔ یہ دیکھ کر مرجھائے ہوئے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور بےساختہ زبان سے
لفظ زم زم نکلی جس کے معنی عبرانی زبان میں "رک جا "کے ہیں اور اسی لفظ نے بعد میں نام کی
حیثیت اختیار کر لی اور وہ چشمہ زمزم کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ جناب ہاجر نے اس
سردوشیریں پانی سے اپنی اور اپنے بچے کی پیاس بجھائی او پتھروں کو جمع کرکے اس کے
چاروں طرف ایک منڈیر بنادی تاکہ پانی اس میں جمع ہو تا رہے اور ضائع نہ ہونے پائے
۔ پانی کو دیکھ کر فضا میں اڑنے والے پرندے سمٹ آئے اور چشمہ کے گرد منڈلانے لگے
اور دیکھتے ہی دیکھتے خشک پہاڑوں اور سرزمینوں اور مردہ ریگزاروں میں زندگی کے
آثار ابھر آئے ۔
اسی زمانہ میں بنی جرہم کا ایک قافلہ یمن سے شام جاتے ہوئے
پہاڑیوں کے اوپر سے گذرا ۔ اس نے وادی میں پرندوں کے جھنڈ دیکھے توحیرت میں کھو
گیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں پرندوں کو پرواز کرتے ہوئے نہ دیکھا تھا اور جہاں نہ پانی ہوااورنہ سبزہ وہاں پرندوں کا کیا کام ۔
بڑھتا ہوا قافلہ رک گیا اوپہاڑ کی بلندیوں سے نیچے اترا۔
دیکھا کہ ایک خاتون ایک بچے کے ہمراہ سر جھکائے بیٹھی ہیں اور پاس ہی پانی کا چشمہ
ابل رہا ہے۔ چشمہ کو دیکھ کر انہوں نے جناب ہاجرہ سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے اڑوس
پڑوس میں آباد ہو جائیں، جناب ہاجرہ تو
چاہتی ہی تھیں کہ یہ ویرانہ آباد ہو جائے ، کہا کہ مجھے اپنے شوہر خلیل خدا سے
پوچھے بغیر کسی کو یہاں بسانے کا اختیار تو
نہیں ہے مگر کچھ دن توقف کرد جب وہ آئیں گے تو ان سے پوچھ کر تمہیں اجازت دے دی
جائے گی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے معمول کے مطابق آئے تو جناب ہاجرہ نے
ان سے دریافت کر کے نہیں قرب و جوار میں آباد ہونے کی اجازت دے دی اور چند جھونپڑیاں اور خیموں کی
ایک مختصرسی آبادی قائم ہوگئی اور دنیا کے نقشہ پر ایک متبرک ترین شہر کے ابتدائی
خطوط ابھر آئے ۔
خانہ کعبہ کی
تعمیر
حضرت ابراہیم نے حسب فرمان قدرت اسی گوشه ویران میں خانہ
کعبہ کی تعمیر شروع کی حضرت اسمعیل بھی اس کام میں شریک ہو گئے ۔ وہ اپنے کندھوں پرپتھر
ڈھوڈھو کر لاتے اور حضرت ابراہیم ا نہیں پتھروں کو چن کر دیواریں کھڑی کرتے اور اس
طرح دونوں باپ بیٹوں نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کو تکمیل تک پہنچا یا۔ حسن نیت و
خلوص عمل کا کرشمہ تھا کہ بہت جلد اسے تمام عرب میں مرکزی عبادت گاہ کی حیثیت حاصل
ہوگئی۔ اس گھر کے تعلق سے ہر گوشہ اور ہرسمت سے لوگ کھینچ کھینچ کر آنے لگے رفتہ
رفتہ آبادی بڑھتی گئی اور قلب جزیرۃ العرب میں ایک پر رونق بستی آباد ہوگئی جو بکہ
کے نام سے موسوم ہوئی اور یہی اس کا اصلی اور قدیمی نام ہے چنانچہ زبور میں اسے
وادئ بکہ ہی کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور قرآن مجید میں بھی تعمیر کعبہ کے وقت
اسے بکہ ہی کہا گیا ہے:
"ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ
مبارکا وھدی للعالمین"
" پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ بکہ میں تھا جو بارکت اور سارے جہانوں کے لئے ذریعہ ہدایت ہے"
بکہ کا دوسرا نام اور زبان زد خلائق نام مکہ ہے۔ ضحاک کا
قول ہے کہ مکہ کی میم کو ہاسے بدل دیا گیا ہے اور یہ ایک ہی مقام کے دو نام ہیں اور بعض روایات سے یہ
معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ پر خانہ کعبہ تعمیر ہوا ہے اس کا نام بکہ ہے اور جہاں شہر
آباد ہے اس کا نام مکہ ہے۔ ان دونوں ناموں کی وجہ تسمیہ میں مختلف اقوال بیان کئے
گئے ہیں مگر جس کی تائید ارشاد آئمہ طاہرین
سے ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بکہ بکاء یعنی گریہ سے ماخوذ ہے اور یہ نام اس بنا پہ
تجویز ہوا کہ جب اطراف عرب کے لوگ یہاں حج و زیارت کے لئے جمع ہوتے تھے تو خانہ
کعبہ کے گرد نالہ و بکا کرتے تھے چنانچہ امام جعفر صادق علی السلام کا ارشاد ہے :۔
"سمیت مکۃ بکۃ لان الناس کانوا یتباکون
فیھا "(علل الشرائع)
"مکہ کا نام بکہ اس بنا پر ہوا کہ وہاں پر لوگ جمع ہو کر دریہ و بکا کرتے
تھے۔"
اور مجاہد کا بھی یہی قول ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں:-
"انما سمیت بکۃ لان الناس یتباکون
فیھا الرجال والنساء"(در
منثور-ج2-ص52)
"مکہ کو بکہ اس لئے کہا جاتا تھا کہ وہاں پر زن و مرد جمع ہو کر روتے چلاتے
تھے"
اور مکہ مکار سے مشتق ہے اور مکار کے معنی چیخنے چلانے اورسیٹی بجانے کے ہیں۔ اسے
مکہ اس لئے کہا گیا کہ یہاں حج کے زمانہ میں لوگ شور و غل مچاتے اور سیٹیاں بجاتے
تھے۔ چنانچہ امام رضا علی السلام کا ارشاد ہے :۔
"سمیت مکۃ مکۃ لان الناس کانوا
یمکون بہا"(علل الشرائع)
"مکہ کو مکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہاں پر لوگ چیختے چلاتے تھے"
یہ چیخ و پکار اور شور وغل بھی ان کے نزدیک
عبادت میں داخل اور جز نماز تھا۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :۔
"وما کان صلواتہم عندالبیت الامکاء
وتصدیہ"
"خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا تھا "
مکہ یا ام القریٰ
قرآن مجید میں مکہ کو ام القری کے نام سے بھی یاد کیا گیا
ہے۔ اس کے معنی اصل و بنیاد کے ہیں اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو اساسی
و بنیادی حیثیت رکھتی ہو۔ اسے ام القری (آبادیوں کی اصل و بنیاد) کہنے کی ایک وجہ
یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے انسانی سیلاب کا سرچشمہ امنڈا جو ویران خطوں اور افتادہ
زمینوں سے گزرتا ہوا اطراف عالم میں پھیل گیا۔ چنانچہ جب حضرت اسمٰعیل نے قبیلہ
بنی جرہم کے سردار مضاض ابن عمرو کی دختر سے شادی کی تو اس سے ان کی اولاد پھول
پھلی اور تھوڑے ہی عرصہ میں تہامہ نجد اور حجاز سے لےکر فلسطین ویمن تک پھیل گئی
اور عرب عاربہ کے قدیم باشندوں کے مقابلہ میں عرب کے مستعربہ کے نام سے موسوم ہوئی
اور نو آبادیوں کے سلسلے قائم کرتی ہوئی دنیا کے گوشہ گوشہ میں بس گئی۔یہ سرزمین
حرم آبادیوں کی اصل و بنیاد ہونے کے علاوہ
دین و ہدایت کا بھی مرکز ہے اسی سرزمین پر اللہ تعالی کا پہلا گھر تعمیر ہوا اسی
مقام سے اسلام کی عالمی دعوت نشر ہوئی ، توحید کا آواز ہ بلند ہوا اور اللہ تعالی
کے آخری دین کی بنیاد پڑی۔ اسی خطہ میں نزول قرآن کا آغاز ہوا۔ اور ہدایت کی کرنیں
پھوٹیں اور اسی کے افق سے وہ آفتاب نبوت طلوع ہوا جس کی ضو پاش کرنوں سے نہ صرف ریگزار
عرب کے ذرات کو لودینے لگے بلکہ اس کی شعا
ئیں تاریک سے تاریک گوشوں کو منور کرتی ہوئی ایشیاء کے مرغزاروں سے لے کر افریقہ
کے ریگزاروں تک پہنچ گئیں۔ اور اسی سرزمین کو مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب
کی جائے ولادت ہونے کا فخر حاصل ہے یہیں پر آپ کا بچپن اور اوائل شباب کا زمانہ
گزرا،یہں کے در و دیوار سے پہلے پہل مانوس ہوئے اس کے ریگزاروں اور خشک پہاڑوں میں
چلے پھرے اور اسی کے کوہ صحرا کے وسیع دامنوں میں نشو و نما پائی اور یہیں سے یثرب کی جانب ہجرت فرما ہوئے۔
انسانوں اور نباتات پر مختلف زمینوں کے جغرافیائی اثرات
یہ چیز تجربہ و مشاہدہ سے ثابت ہو چکی ہے کہ زمین کی مختلف خطے
اپنی آب و ہوا ، ہیئت و ساخت و جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے مختلف اثرات کے حامل
ہوتے ہیں چنانچہ جو چیز ایک سرزمین پر اور ایک آب وہوا میں پروان چڑھتی ہے وہ
دوسری زمین اور دوسری آب ہوا میں پھلتی پھولتی نہیں ہے ۔ حالی مرحوم نے کہا ہے:
جا کے کابل میں آم کا پودا کبھی پروان چڑھ نہیں سکتا
آکے کابل سے یاں بہی و انار ہو نہیں سکتے بارور زنہار
اسی طرح ایک ہی
قطعہ زمین کے مختلف ٹکڑے سخت یا نیم ، بنجر یا زرخیز ہونے کی صورت میں مختلف اثرات رکھتے
ہیں۔ چنانچہ زرخیز زمین میں کوئی چیز کاشت کی جائے تو وہ پوری طرح نشو و نما پائے
گی اور بنجر زمین میں کوئی چیز بوئی جائے تو وہ زمین کے اندر ہی گل سڑ جائے گی ۔
اسی طرح سخت اور نرم زمین کے نباتات میں نمایاں فرق ہوتا ہے ۔ نرم زمین میں اگنے
والے پودے کمزور ہوتے ہیں اور سخت اور پتھریلی زمین میں اگنے والی جھاڑیا قوی
ومضبوط ہوتی ہیں ۔ کیونکہ بحرانی جھاڑیوں کو دھوپ ، تیز روشنی اور گرم و خشک موسم
کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی جڑوں کو
زمینی رطوبت کے جذب کرنے کے لئے زمین کی گہرائیوں میں اترنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس
لئے قدرت نے ان میں فطرۃً اتنی طاقت ودیعت فرمادی ہے کہ وہ سنگلاخ زمین میں جگہ
پیدا کرنے اور بڑھنے میں زمین کی سنگینی
کا مقابلہ کر سکیں اور ان کی سختی و صلابت سے ٹکرا کر اس کے اندراپنے ریشوں کا جال پھیلا
سکیں۔ امیرالمومنین نے بھی صحرائی زمین کی اس خاصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا
:۔
"الادان الشجرۃ البریۃ اصلب عود اوالروائع
الخضرۃ ارق جلود او النباتات البویۃ اقوی وقودا و ابطاخمودا" (نہج البلاغہ)
"یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور تر و تازہ پیڑوں کی
چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے۔ اور صحرائی جھاڑیوں کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور
دیر میں بجھتا ہے۔"
اس طرح زمین، آب و ہوا اور طبعی ماحول کا
اثر انسانوں کی ذہنی اور جسمانی ساخت اور ان کے اخلاق وکردار پر بھی پڑتا ہے۔ اور
جو جس سرزمین پر پیدا ہوتا ہے وہاں کی فضا اس کے اخلاق وعادات پر اثرانداز ہوتی ہے
چنانچہ وحشی و صحرائی قبائل میں صحرائی
فضا کے زیر اثر سختی و تندخوئی اور وحشت و بربریت ہوتی ہے اور شہری باشندوں میں
نرم روی ، شگفتہ مزاجی اور امن پسندی کا عنصر غالب ہوتا ہے اور جب ماحول میں
تبدیلی رونما ہوتی ہے اور صحرائی باشندے غیر متمدن ماحول کو چھوڑ کر شہری فضا کی
طرف منتقل ہو جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اسہ شہری ماحول میں ڈھل جاتے ہیں اور خشونت
نرمی سے اور وحشیانہ زندگی متمدن زندگی سے بدل جاتی ہے ۔ یونہی مختلف خطوں اور
اقلیموں کے رہنے والوں کو ایک خاص مزاج اور ایک خاص افتاد طبع ہوتی ہے اور ان خطوں
کا جائزہ لینے کے بعد وہاں کے باشندوں کی مقامی صفات و خصوصیات سے بڑی حد تک آگاہ
ہوا جا سکتا ہے۔
اس ارضی خاصیت کی
روشنی میں پتھریلے اور گرم مقامات کے باشندوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ نرم و ہموار
زمین کے رہنے والوں کی بہ نسبت زیادہ
قناعت پسند، با ہمت ، پر زور اور جفاکش
ثابت ہوں گے کیونکہ گرم و خشک اور ریگستانی علاقہ میں قدم قدم پر نامساعد حالات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے ان حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ان میں طبعاً ابھرآتی
ہے ۔ اور وہ بآسانی حوادث وشدائد جھیل جاتے ہیں۔
امیرالمومنین امام علی کا مولد و منشا
امیرالمومنین میں قوت و توانائی اور تحمل شدائد کا جو ہر
خدا داد تو تھا ہی مگر جنبہ بشری کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو اس قوت و توانائی
کے نمود نمود میں صحرائے عرب کی تعرب افروز و مشقت آموز زندگی کو بھی ایک حد تک
معاون و سازگار سمجھا جا سکتا ہے۔