جنسی بے راہ روی (مشت زنی)کے جسمانی
اور نفسیاتی خطرات
ان معاملات سے واقف نفسیاتی ماہر ڈاکٹر چہرازی کے مقالہ سے اقتباس
(ماخوز از کتاب ”فسفلہ
احکام“ ناشر”جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی –پاکستان)
نوجوانوں
کا استمناء (مشت زنی) کے عمل تک پنہچنا
نوجوان
کئی ایک پیچیدہ مسائل سے دوچار ہیں جن میں سے ایک جنس کا معاملہ ہے۔ درحقیقت عمر
کے اس مرحلے پر جنسی خواہشات ایک شکل اختیار کر لیتی ہیں اور کچھ چھان بین کے بعد
نوجوان اس جبلت کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی جنسی ترغیب اور تحریک
نوجوان کی طبیعت میں شہوت کی آگ بھڑکاتی ہے۔
گزشتہ
زمانے میں مذہبی تربیت اور معاشرتی رسوم اور آداب کے زیر اثر نوجوان اس اصول کے
پابند تھے کہ جنسی خواہشات سے دوچار ہونے پر انھیں دبا لیتے تھے اور اپنے آپ پر
قابو پا کر جنسی تحریک کے نزدیک بہت کم پھٹکتے تھے۔
لیکن
موجودہ زمانے میں گلی کوچوں' سڑکوں اور گھروں میں نظر آنے والے جنسی مناظر اور
پراپگینڈے پر مبنی اشتہارات اور عریاں تصاویر کا مشاہدہ اور رسالے 'روزنامے'سینما
اور ٹیلیویژن کی فلمیں اور تفریحی داستانیں سب مل کر اس حس کو ابھارنے میں بڑا
مؤثر کردار ادا کرتی ہیں جس کے نتیجے کے طور پر جدید زندگی میں نوجوان شدید
اور پرشور جنسی خواہشات سے دوچار ہیں۔
یہی
وہ مرحلہ ہے جب نوجوان اپنے ہم عمروں کے وسیلے سے سیکھ کر یا نیند وغیرہ میں انزال
سے دوچار ہوجاتا ہے اور چونکہ وہ اس سے لذت حاصل کرتا ہے اس لیئے اس لذت کے عوامل
کو دہراتا ہے اور اس کا یہ فعل رفتہ رفتہ استمناء (مشت زنی) پر منتج ہوتا ہے اور
اس کی زندگی میں ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دیتا ہے۔
کچھ
اطباء اور ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ استمناء(مشت زنی) ایک طبیعی امر ہے۔ وہ
انسانوں اور حیوانوں کے لیئے اس کی ضرورت کو ایک فطری چیز تصور کرتے ہیں لیکن وہ
اس بات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے کہ اگر اس کام کی تکرار کی جائے اور نوبت ہفتے
میں کئی بار تک پنہچ جائے تو نوجوان کو جسمانی اور نفسیات نشو ونما کے لحاظ سے کس
قدر نقصان پنہچ سکتا ہے اور بدقسمتی سے عموما یہ عادت بتدریج شدت اختیار کرتی جاتی
ہے اور چونکہ اس کے وسائل آسانی سے نوجوان کی دسترس میں ہوتے ہیں اس لیئے وہ اس کا
عادی ہو جاتا ہے اور اس فعل کے متعدد بار کرنے سے اس کی انجام دہی میں فاصلہ کم ہو
جاتا ہے۔
اس
عادت کے منحوس نتائج
اس
تحقیق سے جو پچھلے چند سالوں میں کی گئی ہے اور بالخصوص اس تحقیق اور مطالعے سے جو
ہم نے دو ہزار سے زائد نوجوانوں کے بارے میں کیا ہے یہ بات مسلمہ طور پر ثابت ہو
گئی ہے کہ استمناء (مشت زنی) کے موضوع کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس قول
کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے جنسی غدود کی عضویات (PHYSIOLOGY)
کا ذکر کریں:
بلوغت
کی ایک نشانی فوطوں کے غدود کے خلیوں میں سے منی(SEMAN) کا خارج ہونا ہے۔ منی کے ہر
قطرے میں لاکھوں کروڑوں نر انڈے اور ایک مخصوص لیس دار سیال مادہ ہوتا ہے جو فوطوں
کی غدودوں سے خارج ہوتا ہے اور منی کی نالی کے ذریعے منی کی تھیلی میں پنہچتا ہے
جو مثانے کی تھیلی کے پیچھے ہوتی ہے۔
منی
کی تھیلی بتدریج پر ہو جاتی ہے اور منی کا کچھ حصہ بدن میں جذب ہو جاتا ہے اور
نوجوانوں کے اعضاء کی نشو و نما میں مدد دیتا ہے اور جنسی میلانات کا محرک بنتا ہے
لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی زیادہ مقدار خارج ہو جائے اور اولاد پیدا کرنے کے کام
آئے۔
جو
نوجوان جنسی تحریکات کی جانب کم مائل ہوتے ہوں اور مذہبی اعتقادات اور حفظان
صحت کے اصولوں پر عمل در آمد انہیں غلط تحریکات سے باز رکھتا ہو ان کی منی کی
تھیلی پر ہو جانے پر منی عموما نیند کی حالت میں احتلام کی شکل میں خارج ہو جاتی
ہے اور حیاتیاتی (BIOLOLGICAL)
توازن برقرار ہو جاتا ہے لہٰذا ان کے بارے میں فکرمند ہونے کی کوئی بات نہیں۔
لیکن
جن جوانوں کی جنسی تحریک کے عوامل بہت زیادہ ہوں اور محرومی کی حلات میں دن کاٹ
رہے ہوں وہ استمناء (مشت زنی) کو فراغت خاطر کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں اور چونکہ
ایک ایسا شخص ہر جنسی تحریک کے بعد اپنا سکون استمناء میں تلاش کرتا ہے اس لیے وہ
اس عمل کو بار بار دہراتا ہے اور جب یہ عمل بار بار دہرایا جائے اور نوبت ہفتے میں
چند بار تک پہنچ جائے تو نوجوانوں کی نفسیاتی اور جنسی کیفیت فطری حالت سے مختلف
ہوجاتی ہے اور اس کے مدار جنسی کا نظام بگڑ جاتا ہے جس کی سب سے بڑی علامت جنسی
کمزوری ہے۔
ازدواجی
ہمبستری اور استمناء(مشت زنی) میں فرق
اس
کی توضیح یہ ہےکہ:
جب جنسی تحریک کی تکمیل
فطری طریقے سے اور ازدواج کی شکل میں ہو تو مشاہدے ،لمس اور دوسرے حواس کے ذریعے
نوجوان کے مغز میں اس کی جنسی تحریکات کا مرکز برانگیختہ ہوجاتا ہے اور جسم انسانی
کی ساخت کی بنا پر جو تاثیر آنکھ اور لمس وغیرہ سے مغز کے مراکز میں منتقل ہو تی
ہے وہ جنسی عمل پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں جنسی عمل فطری شکل میں انجام پذیر
ہوتا ہے۔
لیکن اسمتناء (مشت زنی) کا معاملہ اس کے بالکل
برعکس ہے اور یہ ایک دوسرا طریقہ ہے جس میں تخیل اور خاص مناظر کا تصور اور ایک
مقام کو چھونا فطری تحریک کے عوامل کی جگہ لے لیتے ہیں اور یوں مدار جنسی میں ایک
غلط رد عمل کا نظام پیدا ہو جاتا ہے۔
جب
یہ عمل بار بار دہرایا جائے اور غلط رد عمل نوجوان کے وجود میں مستحکم ہوجائے تو
یہ امر اس کا موجب بنتا ہے کہ جب وہ جنسی عمل فطری (ازدواجی) طور پر انجام
دینا چاہے تو ناکام رہتا ہے کیونکہ اس کے اندر جنسی تحریک کی تکمیل کا فطری نظام
بگڑ چکا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ازدواج کے وقت اپنے آپ کو کامیابی کے
قابل نہیں پاتا۔
یہ کیفیت اسے بے حد متوحش اور پریشان کر دیتی ہے
اور اس عمل کی تکرار اسے عارضی طور پر ذہنی پریشانی سے باہر نکال لاتی ہے تاہم اس
کا جاری رکھنا اس کی شخصیت اور نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بلاشبہ اس حالت میں نوجوان کی وحشت، پریشانی اور
الجھن بجائے خود اس فعل میں شدت کی وجہ بن جاتی ہے حالانکہ اگر وہ اپنی مذموم عادت
بالکل ترک کردے اور اپنے سکون قلب کی حفاظت کرے اور اس عادت کی بجائے کوئی
اچھی عادت اپنا لے تو وہ یقینی طور پر صحت یاب ہونے کے قابل ہو جائے گا۔
اسمتناء(مشت
زنی) میں مبتلا لوگوں کی جسمانی خرابیاں
ایک
اور اہم نکتہ جو یہاں قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے
ہیں منی کا کچھ حصہ بدن میں جذب ہو جاتا ہے اور نو جوان کی نشو و نما کا موجب بنتا
ہے وہ نہ صرف اس کی جسمانی نشو و نما میں مؤثر ہے بلکہ اس کی ترقی پر بھی بے حد
اثر ڈالتا ہے۔
جب
یہ مواد بار بار استمناء(مشت زنی) کرنے کے نتیجے میں خارج ہوتا ہے تو کامل جنسی
پختگی کی تشکیل میں خلل ڈالنے کے علاوہ لاغری، شخصیت کی کمزوری، ارادے کی کمزوری،
طاقت کی کمی، بے حد شرمیلے پن اور نفسیاتی قوت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔
اسمتناء(مشت
زنی) میں مبتلا افراد کے بیانات
بہتر
ہوگا کہ ہم ان دو موضوعات کی وضاحت کے لیئے استمناء(مشت زنی) میں مبتلا چند ایسے
لوگوں کے بیانات پر نظر ڈالیں جو ازدواج کے بعد ناکام ہو گئے ہیں یا اپنی بیوی سے
ہمبستر ہو کر (مباشرت کر کے) لذت حاصل نہیں کر پاتے یا سرد مزاجی اور جنسی کمزوری
کا شکار ہیں۔
ایک
شادی شدہ جوان کا کہنا ہے:
"میں اپنی بیوی کو پرستش کی حد تک چاہتا ہوں لیکن اس سے ہبستری(مباشرت) کر کے
لذت حاصل نہیں کر پاتا اور یہ چیز مجھے دکھ دیتی ہے۔"
ایک خاتون نے کہا:
"میری شادی کو تین مہینے ہوچکے ہیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے
شوہر کی نظر میں ایک خشک لکڑی کے ٹکڑے کی مانند کیوں ہوں۔"
ایک
نوجوان مرد نے بتایا کہ میں بالغ ہونے کے وقت سے بار بار یہ مذموم عمل انجام دیا
کرتا تھا۔ بعد میں اپنی بیوی سے ہمبستری (مباشرت) میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن میں
اکیلا ہوتا ہوں تو محض سوچنے سے تحریک ہوجاتی ہے۔
جب دو اور نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا گیا تو
انہوں نے کہا کہ یہ عمل بار بار کرنے کی وجہ سے ہم اپنی بیویوں سے ہمبستری(مباشرت)
کے قابل نہیں اور اس بنا پر ہم سخت شرمندہ ہیں۔
ایک
اور جوان نے کہا:
"مجھے اپنی بیوی سے عقد کیے چھ مہینے
ہو گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس عادت میں مبتلا ہونے کی بنا پر میں فریضہ ازدواج
(مباشرت)ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔"
اس نکتے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ گوشہ
نشین اور تنہائی پسند نوجوانوں کے اس میں مبتلا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے لہٰذا
ضروری ہے کہ نوجوان بلا وجہ گوشہ نشینی سے پرہیز کریں اور اپنے لیئے اچھے اور با
ایمان دوستوں کا انتخاب کرکے اس خطرے کا سد باب کردیں۔
شخصیت
کی کمزوری اور وسواس
ایک
اور نقصان جو نوجوانوں کو اس عادت(مشت زنی) سے پنہچتا ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے
زیادہ تر یہ کام کرنے کے بعد نادم اور پشیمان ہوتے ہیں اور اپنے دل میں عہد کرتے
ہیں کہ آئندہ یہ کام نہیں کریں گے لیکن بد قسمتی سے اس کام کے اسباب مہیا ہو جانے
پر اسے پھر کرنے لگتے ہیں۔
یہ بار بار کی ”ندامت“ اور بار بار کا ”اقدام“ ان کی روح کو بے حد دکھ دیتا ہے اور
اس امر کا سبب بنتا ہے کہ نوجوان شخصیت اور ارادے کی کمزوری اور شک اوروہم
سے دو چار ہو جائیں۔
مختصر یہ کہ اسمتناء (مشت زنی) کا عمل جنسی مسائل میں نفسیاتی رد عمل کے نظام کو
غلط راستے پر ڈال کر لذت اور توانائی کے احساس میں خلل پیدا کر دیتا ہے اور
اس کا نتیجہ شرمندگی ' احساس کمتری اور شخصیت کی پراگندی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے
علاوہ ازیں اس کی زد جوانوں کی نشو و نما پر بھی پڑتی ہے۔
٭ختم
شد٭
![]() |
مشت زنی کے نقصانات |