استاد محترم آغا سید جواد
نقوی اقتباس مشرب ناب شمارہ ۵۹
رہبر معظم نے بھی
حکم دیا کہ کربلا کی عبرتیں مومنین کے سامنے بیان کی جائیں۔ کربلا کی عبرتیں یعنی
شمر، خولی ، حر ملا اور عمر سعد وغیرہ جو کس طرح سے اتنے پست ہوگئے؟ آیا یہ کرائے
کے قاتل تھے؟ آیا یہ اُس زمانے کے دہشت گرد تھے؟
پہلی
بڑی عبرت شمر بن ذی الجوشن
امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میں شمر ایک جنرل یا بریگیڈ
یر جتنا عہدہ رکھتا تھا۔ جنگ صفین میں یہ امیر المومنین کی فوج
میں تھا اور بڑا افسر تھا جسکے ماتحت ایک فوجی دستہ تھا اور یہی شمر جنگ صفین میں یزید
کے باپ کیساتھ لڑتا ہوا زخمی ہوا اور جنگ کربلا میں یزید کا سپاہی بن کر علی کے بیٹے
کا سر قلم کرتا ہے۔ کیا یہ عبرت کا مقام نہیں؟ یہ کام کیسے ہوا؟ کس طرح سے یہ کام
ہوا؟ کیوں امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی فوج کا ایک افسر آکر آپ کے فرزند کا سرقلم کر دیتا ہے اور جو ماجرا
اسکے ساتھ پیش آیا وہ ہر آدمی کو شمر بنا سکتا ہے۔
فرق یہ ہے کہ ہمارے لئے وہ موقع نہیں آیا، اگر وہ موقع
آجائے تو بہت سارے شمر بن جائیں گے۔ وہ موقع یہ ہے کہ آج اگر کسی سے کہا جائے کہ
آپکو پارلیمنٹ کا منبر بناتے ہیں یا اس شہر کے کسی انتظامی عہدے میں لیتے ہیں اور
اُسکے بدلے میں آپ ہماری بات مانو تو اُس وقت پتہ چلے گا کہ یہ شمر ہے یا نہیں ہے۔
شمر جو امیر المومنین عللی کی فوج کا افسر تھا، اسکو عبید اللہ ابن زیادہ نے یہ
کہا تھا کہ اگر تم جا کر حسین ابن علی کا سر قلم کر لو گے تو میں تمہیں عمر سعد سے
رئے کی حکومت لے کر دوں گا۔ رئے کی حکومت
کی خاطر باپ کی فوج کا افسر بیٹے کا سرقلم کر رہا ہے۔ وہاں معاویہ کیخلاف لڑا یہاں
یزید کا سپاہی بن کر لڑا۔ اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔
دوسری
بڑی عبرت جس نے قتل امام کا فتویٰ دیا
وہ قاضی شریح کہاں سے آیا جس نے فتویٰ دیا تھا کہ امام حسین
علیہ السلام نے اولوالامر کے خلاف بغاوت کی
ہے اور جو اولوالامر کیخلاف بغاوت کرے اُسکا قتل واجب ہے اور جو یہ قتل کر یگا وہ
بہت اعلیٰ منزل پر پہنچے گا۔ یہ قاضی شریح کہاں سے آیا؟ امیر المومنین علیہ السلام
نے اپنے دور حکومت میں اس قاضی شریح کو کوفہ کے اندر
مقرر کیا تھا۔ یہی جسکو امیر المومنین نے
قاضی بنایا آج آکر فرزند امیر المومنین کے قتل کا فتوی دے رہا ہے اور وہ اسلئے
چونکہ عبید اللہ نے وعدہ دیا تھا کہ اگر تم ادھر آکر یہ فتوی دو تو تم پورے اسلامی
دُنیا کے قاضی القضاۃ بن جاؤ گے ، یعنی چیف جسٹس بن جاؤ گے اور اس نے اس عہدے کی
لالچ میں قتل امام کا فتویٰ دے دیا۔
تیسری
بڑی عبرت، عمر سعد
عمر سعد نے خود عبید اللہ ابن زیاد کو خط لکھ کر کہا کہ میرے
پاس ایسی تدبیر موجود ہے کہ حسین ابن علی ؑ سے جنگ بھی نہ ہو اور آپکا مقصد بھی
پورا ہو جائے اور نیچے لکھا کہ میرے لئے امام حسینؑ کیسا تھ جنگ کرنا بہت مشکل ہے اور وہ مشکل یہ ہے
کہ میں حسین ؑکے رشتہ داروں میں سے ہوں۔ یہ سعد ابن ابی وقاص کا بیٹا تھا۔ سعد ابن
ابی وقاص اسلام کا وہ بڑا سر دار تھا جس نے ایران، روم اور عراق فتح کیا، اس بڑے
سردار کا بیٹا عمر سعد تھا، عمر سعد جس نے کربلا کی جنگ میں یزیدی فوج کی قیادت کی۔
یوں نہیں کہ عمر سعد بہت گمنام آدمی تھا یا دمشق سے آیا ہو اور شام کا کوئی دہشت
گرد ہو۔ ایک بڑے خاندان کا فرد تھا۔ یہ ہی عمر سعد کربلا میں لوگوں کو کہتا ہے کہ
سب گواہی دینا کہ حسین ؑپر سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے۔ کس چیز نے عمر سعد کو
قاتل حسین ؑ بنا دیا؟ اسے بھی رئے کی
حکومت کے وعدے نے قاتل امام بنا دیا۔
ان تینوں کے علاوہ بھی عبرتیں موجود ہیں
ان تینوں کے علاوہ باقی سارے قاتلان حسین ؑ میں بھی ہمارے
لئے عبرتیں موجود ہیں۔ عبرت سے مراد، اسکو پڑھو اور پھر ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے
اس سے عبور کرو۔ آج اگر دین سے خیانت کے بدلے مجھے رے کی حکومت دی جائے تو مجھے کیا
کرنا چاہئے؟ آج اگر دین سے خیانت کے بدلے پارلیمنٹ میں سیٹ دینے کا وعدہ دیا جائے
تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ ایک ویزے کے بدلے اگر ایک عالم دین اُٹھ کر انقلاب اسلامی
کا مخالف ہو جاتا ہے اور ولایت فقیہ کیخلاف بیان دیتا ہے تو یقین جان لو کہ یہ اگر
عبید اللہ کے پاس ہوتا تو عمر سعد کی جگہ یہ ہوتا ، یہ کربلا میں یزید کی فوج کا
کمانڈر ہوتا۔
عبرت سے موعظہ لینا
ہم عموماً کہتے ہیں کہ عبرت لو اور اسکا مطلب ہے کہ جو کام
اس نے کیا ہے وہ آپ نہ کرو۔ عبرت عبور سے ہے، پس عبرت لو یعنی عبور کرو ۔ جیسے آپ
نے سرطان کا مریض دیکھا جو سگریٹ پیتا تھا ، اب آپ عبرت لو اور سگریٹ پینا چھوڑ دو
اور یہ بات ذہن میں بٹھا دو کہ اگر اُسکے ساتھ یہ ہوسکتا ہے تو میں بھی اگر اس راہ
پر چلوں تو میرے ساتھ بھی یہی ہوگا لہذا اسکی غلطی سے عبرت لے کر اپنی ذات تک پہنچ
جاؤ۔ عبرت حاصل کرنے کا یہ مطلب ہے۔ عبرت کی بہت ساری جگہیں ہیں۔