کہانی "ایک شخص جو مدد کا طالب تھا

 

شہید مطہری کی کتاب "سچی کہانیاں جلد اول"سے اقتباس  کہانی "ایک شخص جو مدد کا طالب تھا

وہ جب کبھی اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتا تو اسے فوراً ہی یاد آجا تا تھا کہ اس نے کس قدر تلخ اور مصائب میں ڈوبے ہوئے دن بسر کیے ہیں۔ یہ وہ برے دن تھے جب اس کی اتنی بھی حیثیت نہ تھی کہ اپنے بیوی بچوں کو پیٹ بھر غذا فراہم کر سکے۔ اور اس کے معصوم بچے بھوک کی آگ میں جھلستے رہے تھے ۔ پھر وہ دل ہی دل میں اس ایک جملے کے بارے میں غور وفکر کیا کرتا تھا جو اس کی ذہنی بیداری کا سبب قرار پایا۔ وہ ایک جملہ جس نے اس کی روح کو غیر معمولی قوت عطا کر دی۔ وہ ایک جملہ جس نے اس کی زندگی میں انقلاب بر پا کر دیا اور اس کی زبوں حالی خوشحالی میں تبدیل ہو گئی ۔ کل جو گھرانہ انتہائی فقر و فاقہ اور بے سروسامانی کی شرمناک زندگی بسر کرنے پر مجبور تھاوہ آج اس ایک جملے کی برکت سے انتہائی پر سکون زندگی بسر کرنے لگا۔

وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ رسول مقبول کا ایک صحابی تھا۔ فقیری اور تنگدستی اس پر پوری طرح غالب تھی ۔ ایک روز جب وہ دنیاوی پریشانیوں سے بہت تنگ آ گیا تھا اس کی بیوی نے اسے مشورہ دیا کہ تم اپنی زبوں حالی کا تذکرہ رسول مقبول سے کرو۔ چنانچہ اس نے طے کیا کہ وہ رسول کی خدمت میں اپنا پورا حال کہہ سنائے گا اور ان سے مالی امداد بھی طلب کرے گا۔

چنانچہ اس ارادے کے ساتھ وہ خدمت رسول میں حاضر ہوا۔ لیکن طلب حاجت سے قبل ہی اس نے رسول مقبول کی زبان سے یہ جملہ سنا: "جو شخص ہم سے مدد کا طالب ہوگا ہم یقینا اس کی امداد کریں گے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی مخلوق کے سامنے دست سوال دراز  کرنے سے بے نیازی اختیار کرتا ہے تو خالق کائنات اس کو واقعی بے نیاز کر دیا کرتا ہے۔" یہ جملہ سننے کے بعد وہ شخص رسول مقبول کی خدمت میں کچھ نہ عرض کر سکا اور واپس لوٹ آیا۔ گھر پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ پہلے ہی جیسا فقر و فاقے کا ماحول طاری ہے۔ مجبوراً دوسرے دن اسی ارادے کے ساتھ وہ خدمت رسول میں حاضر ہوا۔ اس دن بھی اس نے رسول مقبول کی زبان سے وہی جملہ سنا کہ ” جو شخص ہم سے مدد کا طالب ہوگا ۔ ہم یقینا اس کی مدد کریں گے لیکن اگر کوئی شخص کسی مخلوق کے سامنے دست سوال پھیلانے سے بے نیازی اختیار کرتا ہے تو خالق کائنات اس کو واقعی بے نیاز کر دیا کرتا ہے۔" اس بار بھی وہ اپنی حاجت بیان کئے بغیر گھر واپس لوٹ آیا۔ لیکن گھر پر چھائی ہوئی بے سروسامانی اور غیر معمولی مصائب روزگار نے اسے اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ دوبارہ طلب حاجت کا ارادہ لئے ہوئے خدمت رسول میں پہنچ گیا اس بار پھر رسول مقبول کے ہونٹ حرکت میں آئے اور انہوں نے اپنے پہلے جیسے مخصوص لہجے میں وہی جملہ پھر دہرا دیا۔

اس بار رسول مقبول کے جملے کو سن کر اس شخص کو غیر معمولی سکون ملا اسے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ جملہ ہی اس کی تمام پریشانیوں کو دور کرنے کی کنجی ہے۔ اس دفعہ جب وہ خدمت رسول سے اٹھ کر جانے لگا تو اسے بے پناہ سکون کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ نہایت اطمینان کے ساتھ قدم بڑھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ وہ اپنے دل میں یہ سوچتا چلا جار ہا تھا کہ اب آئندہ کسی شخص کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔ اگر سوال ہی کرنا ہے تو اپنے پروردگار سے کروں گا اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوا اس قوت بازو سے کام لوں گا جو اس نے ہمیں عطا کر رکھی ہے۔ اس کے بعد اپنے پروردگار سے دعا کروں گا کہ وہ مجھے میرے کام میں کامیابی عطا کرے اور مجھے ہر طرح سے بے نیاز بنا دے۔ اس کے بعد اس شخص نے غور کرنا شروع کیا کہ آخر میں کیا کام کر سکتا ہوں ؟ فورا ہی اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ جنگل سے لکڑیاں لا کر اسے بازار میں فروخت کر دیا کرے۔ اس نے پڑوسی سے کلہاڑا ادھار مانگا اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ تھوڑی محنت کے بعد اس نے بہت سی لکڑی اکٹھا کرلی اور اسے لاکر بازار میں فروخت کر دیا۔ اس طرح اسے اپنی محنت کا پھل بہت اچھا معلوم ہوا۔ چنانچہ آئندہ بھی اس نے اپنا یہ کام جاری رکھا۔ دھیرے دھیرے اس نے اپنی آمدنی سے ایک کلہاڑا خرید لیا۔ پھر کچھ دنوں کی آمدنی سے اس نے کچھ جانور اور دیگر گھر یلو سامان بھی خرید لئے۔ لیکن وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اسے فروخت کرنے برابر جاتا رہا اور کچھ عرصے بعد وہ ایک مالدار تاجر بن گیا اور غلام وغیرہ بھی رکھ لئے ۔

ایک روز رسول مقبول اس شخص کے پاس گئے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ میں نے نہیں کہا تھا کہ جو شخص ہم سے مدد چاہے، ہم اس کی مدد ضرور کریں گے ۔ لیکن کسی شخص نے بے نیازی سے کام لیا تو پروردگار عالم اسے یقیناً بے نیاز بنا دے گا۔


کہانی ٹائٹل





مواد سے پہلے اشتہارات

مواد کے بعد اشتہارات