حقیقت مقدمہ فدک (مقدمہ فدک کا باطن)

تحریر و تحقیق علی عمران انقلابی

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ بنت رسول اللہ کی چاہے ولادت ہو یا شہادت یا کسی بھی وجہ سے سیدہ کا ذکر ہو تو اکثریت علمی و مذھبی رجحان رکھنے والوں کے ذہن میں ایک نام و موضوع لازما گردش کرتا ہے اور وہ ہے "فدک". فدک کا موضوع تاریخ میں بہت دلچسپ موضوع رہا ہے ہر دور میں ہم یہاں فدک کی ظاہری تاریخ پر بحث نہیں کریں گے بلکہ جو اس کا باطن و حقیقت ہے اس کی طرف نشاندہی کریں گے لیکن سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ فدک ہے کیا؟
فدک 
 وہ علاقہ ہے جو خیبر میں یہودیوں کے پاس سر سبز زمین  تھی جس میں خجوروں کے باغات تھے  لیکن  6 ھجری میں جنگ خیبر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد فدک میں رہنے والے یہودی جو باغات کے مالک تھے بغیر کسی جنگ کے اپنی سرزمین پیغمبر اکرم ﷺ کے حوالے کر دیتے ہیں چوںکہ یہ زمین بغیر کسی جنگ کے حاصل ہوئی تھی لہٰذا انفال کے ضمرے میں آتی تھی اور پیغمبر کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کا اس میں کوئی حق اور حصہ نہیں تھا ۔ مورخین فدک کی سالانہ درآمد کو 24000 درھم سے لے کر 70000 درھم تک بیان کرتے ہیں۔

جنگ خیبر کے بعد ہی مسلمانوں کی معاشی و مالی حالت بہتر ہوئی انھیں خیبر کے باغات کی درآمدنی کی وجہ سے اور رسول اللہ اس کی آمدنی سے امور مملکت اور معاشی و مسلمانوں کی برتری  کے لیئے استعمال کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے بعض شخصیات کا مشہور قول ہے کہ ہم نے جنگ خیبر کے بعد ہی اپنے گھروں میں گوشت پکتے دیکھا ہے یعنی خیبر کے بعد ہی مسلمانوں کی مالی حالت بہتر ہوئی تھی اور حکومت اسلامی کے ملکیت میں بھی بہتری آئی۔
فدک رسول اللہ کی ملکیت خاصہ تھا اور جب آیہ وآت ذاالقربیٰ حقہ نازل ہوا تو آپ نے ایک دستاویز کے ذریعہ اسے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا کو دے دیا ۔ اور مولا علی علیہ السلام کی نگرانی و ملکیت میں وہی سارے امور انجام پاتے تھے مملکت رسول کے اور اپنے خاندان وغیرہ کے اور اسی طرح یہ عام معمولی امور رحلت رسول اکرم تک جاری  رہے۔

رحلت رسول کے بعد جو حکومت بنی اس نے یہ فدک اپنے قبضہ میں کر لیا جس پر دختر رسول نے دربار جا کہ مطالبہ کیا کہ فدک میرا حق ہے اور مجھے واپس کر لیا جائے اور دلائل دیے اور گواہ بھی پیش کیے لیکن حکومت نے اپنے دلائل کی بنیاد پرباغ فدک واپس نہیں کیا  جو تاریخ میں درج ہے اور بی بی زہرا اس وجہ سے ناراض چلی گئی اور شہادت تک ناراض رہیں بی بی کا یہ مطالبہ اتنی اہمیت کا حامل تھا جو بی بی نے دربار میں جا کہ اس وجہ سے خطبہ دیا  جو خطبہ فدک کے نام سے معروف ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ بی بی زہرا کا پرزور و شدت کے ساتھ مطالبہ تھا کہ فدک ملے لیکن نہیں ملا اور ہم بعد میں دیکھتے ہیں کہ امام علی سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک کسی نے بھی فدک کا مطالبہ نہیں کیا جیسا کہ بیبی سیدہ نے کیا تھا اور شہادت تک احتجاج میں اور ناراضگی میں رہیں ، لیکن بعد والے ائمہ نے فدک کا مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ عمر ابن عبدالعزیز نے خود اھلبیت  کے حوالے کیا تھا لیکن بعد والے خلفاء نے واپس لے لیا کبھی ائمہ کو دیا جاتا کبھی واپس کیا جاتا یہ تاریخ میں رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کسی امام نے فدک کا مطالبہ نہیں کیا کیوں؟ اور  دوسرا سوال یہ ہے کہ خلافت اول میں یہ باغ بیبی کو کیوں نہیں دیا گیا جب کہ بعد والے بعض عباسی خلفاء اور عمر بن عبدالعزیز دینے کے لیئے کیوں تیار تھے ؟

 

خلافت اول میں باغ فدک اسی لیے واپس نہیں کیا گیا کیوں کہ ساری مملکت کی دیکھ بھال اور جنگ کے اخراجات وغیرہ اسی باغ فدک کی آمدنی سے کیے جاتے اور تمام امور مملکت کی یہ واحد آمدنی تھی اور رسول اللہ کے دور میں بھی یہی خیر آمدنی تھی اور جب رسول نے بیبی زہرا کو باغ  دے دیا تھا پھر بھی یہ امور زیادہ تر معاشرے کی اصلاح و بہبود کے لیئے خرچ ہوتے تھے اور خود اہلبیت ضرورت کے علاوہ زیادہ نہیں رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ زہرا ؑکے گھر اکثر فاقہ میں ہوتا اور جو کچھ ہوتا وہ مساکین و غربیٰ کو دے دیتے تھے۔
لہٰذا  خلافت اول میں باغ فدک اسی لیئے بیبی کو واپس نہیں دیا  اگر کرتے تو ان کی حکومت چل ہی نہیں سکتی تھی  ، اس بات کا حوالہ علامہ حلبی کی تحریر سے ملتا ہے جو کتاب سیرت حلبیہ –جلد  ۳ صفحہ – ۴۰۰ میں موجود ہے کہ
"حضرت ابوبکر نے جناب فاطمہ کو فدک کی دستاویز  لکھ دی اتنے میں حضرت عمر آئے اور پوچھا کہ یہ کیا ہے حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں نے فاطمہ کے لئے میراث کا وثیقہ لکھ دیا ہے جو انہیں باپ کی  طرف سے پنہچتی ہے۔ حضرت عمر نے کہا کہ پھر مسلمانوں پر کیا صرف کرو گے جب کہ اہل عرب تم سے جنگ کے لئے آمادہ ہیں اور یہ کہہ کر حضرت عمر نے وہ تحریر چاک کر ڈالی"

  اسی طرح حکومت نہ چل سکتی اور عوام اٹھ کھڑی ہوتی اور حکومت وہیں سے اس کی طرف جاتی جہاں فدک تھا حکومت وقت نے حکومت کی خاطر فدک واپس نہیں کیا اور زہرا ناراض ہوئیں
اور بیبی زہرا نے بھی فدک بحیثیت باغ مطالبہ نہیں کیا تھا اصل میں فدک بہانہ تھا  اور بیبی بھی یہی چاہتی تھیں کہ فدک لوں تاکہ ان کی حکومت نہ چلے اور حکومت واپس اپنے مرکز یعنی امامت میں واپس آئے بی بی کا مطالبہ بھی سیاسی تھا اور انھوں بھی اسی سیاسی وجہ سے باغ فدک واپس نہیں کیا تھا۔

اگر نہ بیبی فقط اپنی میراث لینے گئی تھیں حکومت  کی خاطر نہیں گئیں تھیں تو بعد والے آئمہ نے اپنی میراث کیوں طلب نہیں کی کس لیئے اور بعد والی حکومتیں بھی فدک دینے کے لیئے اس لیئے تیار تھیں کیوں کہ خلافت راشدہ کے بعد بہت فتوحات کی وجہ سے آمدنی کے کافی ذرائع ہوگئے تھے فدک سے بڑھ کر یعنی حکومت کا انحصار فدک پر نہیں تھا اسی لیئے بعد والے آئمہ نے فدک کا مطالبہ نہیں کیا  اگر فدک کا مطالبہ کرتے اور بعد والے خلفاء نے دیا بھی تو اسی وجہ سے کیوں کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں تھا اسی لیے دیا لیکن خلافت اول میں سیاسی حالات اور تھے اور سارا انحصار فدک پر تھا۔


 اس کی وضاحت امام موسیٰ کاظم کی اس حدیث سے اور اس واقعہ سے  ہوتی ہے جو درج ذیل ہے؛
عباسی خلیفہ ہارون الرشیدنے  لوگوں میں اپنا چہرہ مقبول بنانے اور عباسی خلافت کو اچھا دکھانے کے لیئے اعلان کیا کہ بنو امیہ کے دور میں جس جس کا نقصان کیا گیا ، جو سامان لوٹا و چھینا گیا وہ لسٹ میں اپنا نام لکھوائیں، ہم ان کا سارا نقصان پورا کریں گے۔ سب لوگوں نے آکر اپنا نام لکھوایا اور معاوضہ لے گئے ۔ کسی نے کہا میرا درخت کاٹ دیا ، کسی نے کہا میری دیوار گرادی، کسی نے کہا میرا فلاں رشدہ دار قتل کر دیا۔۔۔وغیرہ  اور ہارون الرشید نے بھی انہیں معاوضہ دے دے کر اپنا حسن خلافت دکھا رہا تھا کہ امام ہفتم امام موسیٰ کاظم یہ سب دیکھ رہے تھے تو ہارون الرشید امام سے کہنے لگا کہ کہاں ہے آپ کا وہ باغ فدک؟ میں ابھی شاہی نوٹیفکیشن جاری کرتا ہوں کہ یہ پراپرٹی آپ کو لوٹائی جائے۔ روایت یہ ہے:
"امام موسیٰ کاظم سے ہارون رشید کہتا ہے: فدک لے لیجئے، میں اسے آپ کو واپس لوٹانا چاہتا ہوں۔
امام نے فرمایا: میں نہیں لوں گا مگر اس کی تمام حدود کے ساتھ ۔
ہارون نے کہا: اس کی حدود کیا ہیں ؟
امام نے فرمایا: اگر میں اس کی حدود بیان کروں تو تم مجھے نہیں لوٹاؤگے۔
ہارون نے کہا: آپ کے جد کا واسطہ بیان فرمائیں
امام نے فرمایا: جہاں تک اس کی پہلی حد کا تعلق ہے تو  وہ عدن ہے
پس ہارون کا چہرہ متغیر ہو گیا اور اس نے کہا : یہ کیا؟
پھر امام نے فرمایا: اس کی دوسری حد سمرقند ہے۔
پس ہارون کا چہرہ خاکستر ہوگیا۔
امام نے فرمایا اس کی تیسری حد افریقہ ہے۔
پس ہارون کا چہرہ سیاہ پڑگیا۔ تعجب سے کہنے لگا: اوہ!
امام نے فرمایا: اس کی چوتھی حد سیف البحر ہے جو جزائر اور ارمینیہ کے بعد آتی ہے۔
ہارون نےکہا: پس ہمارے لیئے تو کچھ بھی نہیں بچا، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ میری جگہ بیٹھ جائیں۔
امام نے فرمایا : میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر میں نے اس کی حدود بیان کیں تو تم اسے نہیں لوٹاؤ گے۔
پس اسی دوران ہارون نے امام کے قتل کا ارادہ کر لیا" (بحارالانوار
ـ جز۲۹صفحہ ۲۰۰/الجز ۴۸ صفحہ ۱۴۴)

بس حقیقت میں فدک حکومت تھی حکومت اسلامی اگر حکومت نہ ہوتی تو امام کاظم وہ  باغ واپس لے لیتے جس کے لیے زہرا دنیا سے ناراض گئیں۔

 

٭واللہ اعلم بالصواب٭

حقیقت مقدمہ فدک (مقدمہ فدک کا باطن)
حقیقت مقدمہ فدک (مقدمہ فدک کا باطن)

یہ کالم ڈؤنلوڈ کریں 

مواد سے پہلے اشتہارات

مواد کے بعد اشتہارات