مفتی جعفر حسین کی کتاب "سیرت امیرالمومنین جلد اول" سے اقتباس مضمون "نسب و خاندان"
امیر المومنین کی شخصیت اور ان کی نسبی و خاندانی رفعت کو
سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے ان اسلاف پر بھی ایک نظر کی جائے کہ جن کی پشتوں
میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے رہے ہیں تاکہ نسلی خصوصیات اور ان خصائص و صفات کا
اندازہ ہو سکے جو انہیں اپنے آباؤ اجداد سے تقاضائے بشریت در ثہ میں ملے اور ان کی
عظیم شخصیت کی تعمیر میں ایک مناسب و سازگار عنصر کی حیثیت سے کار فرما رہے ۔
حضرت کا سلسلہ نسب یہ ہے:۔ علی ابن ابی طالب ابن عبد المطلب ابن ہاشم
ابن عبد مناف ابن قصی ابن کلاب ابن مره ابن کعب
ابن لوی ابن فہر ابن مالک ابن نضر بن کنانہ
ابن خزیمہ ابن مدرکہ ابن الیاس ابن مضر بن نزار
ابن معد ابن عدنان ۔
تاریخ عرب شاہد ہے
کہ اس سلسلہ جلیلہ کی تمام فردیں اپنے اپنے عہد میں دنیا کی بڑی اور عظیم شخصیتیں
تھیں اور ان میں ہر فرد اپنے آداب و طرز
معاشرت میں ایک تہذیب خاص کا حامل مسلک ابراہیمی کا پیر،و اصلاح و تجدید کا
پیغامبر، ذہنی و عملی انقلاب کا داعی اور بے داغ کردار کا مالک تھا۔ انہوں نے
کفرستان عرب کی تاریکی و تیرگی میں دین حنیف کی شمعیں بلند رکھیں۔ وحشت، جہالت اور
اخلاقی زبوں حالی کے دور میں اخلاقی اقدار کی حفاظت کی اور اپنے عمل و کردار سے
عظمت انسانی کے نقوش روشن کئے ۔ تہذیب و شائستگی کے فروغ معاشرہ کی اصلاح و ترقی
اور عمرانی و اجتماعی عدل اور انسانی حقوق کے تحفظ کو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد
قرار دیا۔ شرو فساد کے عناصر کو کچلنے۔ انسانیت، اخوت اور ہمدردی کے جذبات پیدا
کرنے میں اپنے مساعی کو سر گرم عمل رکھا، تفرقہ بندیوں کو ختم کرنے کے لئے جماعتی
تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ تجارت کو فروغ دے کہ معاشی فلاح و بہبود کا سامان کیا۔
مظلوموں کی حمایت و حق رسی کا بیڑا اٹھایا اور دور و دراز سے آنے والے حاجیوں کی
جہانداری اور مسافرو اور بے نواؤں کی خدمت وامانت کا ذمہ لیا۔ یہی وہ امتیازات تھے
جن کی وجہ سے عوام کے دلوں میں شایان شان مقام حاصل کیا اور غیر معمولی عظمت و
توقیر کی نظروں سے دیکھے گئے۔
ذیل میں ان عظیم
اور تاریخ ساز شخصیتوں کے حالات زندگی مختلف تاریخی کتب سے اختصار کے ساتھ درج کئے
جاتے ہیں تاکہ ان کی بلند سیرتوں اور قابل فخر کارناموں پر روشنی پڑ سکے۔
عدنان
ابن ادد :- آپ
حضرت اسمٰعیل ؑکے فرزند قیدار کی اولاد میں ایک نمایاں شخصیت تھے۔ قیدار کی اولاد
حجازہ ہی میں سکونت پذیر رہی اور آپ بھی حجاز میں پیدا ہوئے ۔ بنی اسمعیل کے مشہور
قبائل انہی کے نسل سے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں آلِ عدنان اور آل مضر کہا جاتا ہے۔ آپ
وجیہ خوش صورت اور بچپن ہی سے عمدہ و پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے۔ چہرے سے فطانت و
ذہانت کے آثار جھلکتے تھے اور پیشانی سے اقبال و ہوشمندی کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔
ماتھے کی چمک اور چہرے کی تابندگی غمازی کرتی تھی کہ ان کی نسل سے ایک نور قدسی کا
ظہور ہو گا جو اپنے رُخ روشن کی چھوٹ سے عالم کو منور و تاباں کرے گا۔
آپ اس دور کے باوقار و پر تمکنت سردار مشہور ترین شجاع تلوار کے دھنی اور میدان
جنگ کے یکہ تاز شہسوار تھے اپنی شجاعت و دلیری کی وجہ سے ایک نمایاں مقام حاصل کیا
اور عرب کے ریاست و سر براہی کے بلند عہدہ پر فائزہ ہوئے۔ بطحا و یثرب کے باشندوں کے علاوہ صحرائی قبائل
نے بھی ان کی ریاست و سیادت کو تسلیم کیا۔
اور ان کے پرچم اقتدار کے نیچے جمع ہو گئے ۔ آپ نے خانہ کعبہ کی عظمت و توقیر کے
پیش نظر ایک پر دہ تیار کروایا اور اسے کعبہ پر آویزاں کرنے کا شرف حاصل کیا۔
بلاذری نے لکھا ہے :- اول من كسا
الكعبة عدنان(انساب ج ۱ ص
۱۵) "عدنان نے سب سے پہلے خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا۔"
جب کلدانی فرمانروا بخت نصر بیت المقدس فتح کرنے کے بعد بلاد عرب کی طرف تاخت و
تاراج کے لئے بڑھا اور سر زمین حجاز پر حملہ آور ہوا تو آپ نے امکانی حد تک اس کا مقابلہ کیا مگر آپ کے ہمراہیوں کے
قدم اکھڑ گئے اور جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آپ اکیلے یا چند آدمیوں کے ساتھ دشمن
کی افواج قاہرہ کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے ۔ آپ نے حجاز چھوڑنے ہی میں مصلحت سمجھی
اور اپنے بیٹوں کو لے کر یمن چلے آئے اور یہیں پر طرح اقامت ڈالی اور یہیں پر وفات
پائی۔ آپ نے دس فرزند چھوڑے جن میں سب سے زیادہ نامور اور بلند مرتبت معد
ہیں۔
معد ابن عدنان
:- آپ کی والدہ کا نام
مہدد بنت اللہم تھا جو قبیلہ بنی جرہم سے تھیں ۔ آپ اپنے والد کے ہمراہ یمن میں
سکونت پذیر تھے وہیں پر پلے بڑھے اور وہیں پر تعلیم و تربیت پائی ۔ جب بخت نصر دنیا
سے چل بسا اور عرب کی فضا پر سکون ہوئی تو قبائل عرب نے انہیں حجاز واپس آنے کی
دعوت دی اور ایک شخص کو خصوصی طور پر ان کے لانے کیلئے بھیجا اور آپ اس کے ہمراہ
حجاز چلے آئے اور ایک روایت یہ ہے کہ جب بخت نصر نے عرب پر اقتدار حاصل کر لیا تو
حضرت ارمیا، انہیں اپنے ساتھ شام لے گئے اور وہیں پر رہتے سہتے رہے ۔ جب بخت نصر
کے مرنے سے فتنے تھمے تو آپ حجاز چلے آئے اور عرب کی ریاست و سرداری کے منصب پر
فائز ہوئے یعقوبی نے لکھا ہے کہ اولاد اسمٰعیل میں کوئی فرد عزت و شرف کے لحاظ سے
ان کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکی ۔ اپنی حق گوئی، راست بیانی اور خوش اطواری کی بدولت ایک
بلند مقام حاصل کیا اور عرب میں انتہائی عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے گئے آپ بھی
اپنے والد گرامی کی طرح شجاع، نبرد آزما اور فنون جنگ میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔
نہ کبھی دشمن کو پیٹھ دکھائی اور نہ کبھی شکست سے دو چار ہوتے بلکہ ہمیشہ حریف کے
مقابلہ میں فاتح و غالب رہے۔ صاحب تاریخ خمیس نے لکھا ہے :-
" لم يحارب احد الارجع
بالنصر و الظفر" (تاریخ خمیس ج ۱
ص۱۴۷)
"جس سے جنگ کی اس کے مقابلہ میں فتح و کامرانی کے ساتھ پلٹے "
آپ نے سب سے پہلے اونٹوں پر کجاوہ رکھنے
اور اسے تنگ سے باندھنے کا رواج دیا اور سر زمین حرم کے حدود پر پتھر نصب کر کے ہمیشہ کے لئے اس کی حد بندی
کر دی۔
آپ کے چار فرزند تھے قضاعہ، نزار، قنص اور ایاد۔ قضاعہ بڑا بیٹا تھا۔ اسی کے نام
پر ان کی کنیت ابو قضاعہ قرار پائی۔ ان بیٹوں میں نزار شرف خصوصی کے حامل ہوئے۔
نزار ابن معد :- آپ کی والدہ کا نام معانہ بنت جوشم تھا جو قبیلہ بنی جر ہم سے تھیں۔ نزار کی
ولادت انتہائی مسرت و شادمانی کے جلو میں ہوئی کیونکہ معد آپ کی تابندہ و تابناک پیشانی
کو دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ یہی بچہ حامل نبوت و و ورثہ دار امانت خلیل ہے۔ انہوں
نے اس ولادت کی خوشی میں ہزار اونٹ ذبح کئے اور بڑے پیمانہ پہ قبائل عرب کی دعوت کی
اور مولود نو سے مخاطب ہوکر کہا :-
"لقد استقللت لک ھٰذا االقربان و انہ نزر قلیل"( تاریخ خمیس ج ۱ ص۱۴۸)
"تمھارے مرتبہ کو دیکھتے ہوئے میں اس قربانی کو کم سمجھتا ہوں اور یہ ہے بھی
بہت کم"
اور چونکہ نزار کے معنی تھوڑے اور کم
کے ہیں اس لئے بچے کا نام ہی نزار پڑ گیا۔ آپ حسن صورت اور عقل دانش کے اعتبار سے
اپنی مثل و نظیر نہ رکھتے تھے۔ دیار بگری نے کہا ہے :-
" خرج اجمل اهل زمانه و
اکثر هم عقلا" (تاریخ خمیس ج ۱ ص۱۴۸)
"آپ اپنے دور میں حسن و جمال اور عقل و دانش میں سب سے بڑھے ہوئے تھے"
معد کے انتقال کے بعد قبائل عرب کی قیادت و سرداری انہی سے متعلق ہوتی اور آپ اپنے
فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کرتے رہے۔ انہوں نے سب سے پہلے عربی تحریر کی ابتداء کی
اور عربی رسم الخط ایجاد کیا۔ زندگی کے آخری ایام میں اپنے بیٹوں سمیت صحرا میں مقیم
تھے۔ جب موت کے آثار دیکھے تو وہاں سے اٹھ کر مکہ میں چلے آئے اور وہیں پر انتقال
کیا۔ صاحب تاریخ الخمیس نے لکھا ہے کہ آپ مکہ کے قریب ذات الجیش میں دفن ہوئے ۔ آپ
نے چار فرزند چھوڑے ۔ ربیعہ ، انمار ، مضر اور ایاد۔ ان میں مضر اس سلسلہ جلیلہ کی
ایک کڑی ہیں۔
مضر ابن نزار : -آپ کی والدہ کا نام سودہ بنت عک تھا۔ آپ ملت ابراہیمی سے
وابستہ اور دین حنیف کے پیرو تھے اور دوسروں کو بھی دین حنیف کی پیروی کی تلقین
کرتے تھے۔ اس دین حنیف سے وابستگی کے سلسلہ میں پیغمبراکرم ﷺکا ارشاد ہے :-
"انهما كانا علیٰ دین ابراهیم" (تاریخ یعقوبی ج1ص226)
" ربیعہ اور مضر دونوں ابراہیم کے دین پر تھے "
اور ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :-
لا تسبو مضر فانه
كان قد اسلم۔
"مضر کو برا نہ کہو اس لئے کہ وہ مسلمان تھے۔ “
مضر جود و کرم اور عقل و فہم میں بیگانہ اور ہر لحاظ
سے اپنے بھائیوں میں ممتاز تھے۔ اگر چہ نزار کے چاروں بیٹے عقل و دانش اور فہم و
فراست میں مانے ہوئے تھے مگر مضر میں معاملہ فہمی، حقیقت رسی اور مردم شناسی کا
خصوصی جو ہر تھی ۔ بلاذری نے تحریر کیا ہے کہ جب نزار کا انتقال ہو گیا تو ربیعہ
اور مضر نے فرمانروائے وقت کے ہاں تجھے کا ارادہ کیا تا کہ وہ قبیلہ کی سرداری ان
دونوں میں سے کسی ایک کے پائے نام کرے۔ ادھر مضر سامان سفر کی فراہمی میں مصروف
ہوئے۔ اُدھر ربیعہ چپکے سے نکل کھڑا ہوا اور بادشاہ کے ہاں پہنچ گیا اور اس سے اچھی
خاصی راه و رسم پیدا کر لی ۔ اور اس کے جلد روانہ ہونے کا مقصد بھی یہی تھا۔ کہ
بادشاہ سے مراسم پیدا کر کے اسے اپنی طرف مائل کرے اور زیادہ سے زیادہ انعام و
اکرام حاصل کرے۔ چند دنوں کے بعد مضر بھی سامان سفر کی تکمیل کے بعد پہنچ گئے مگر
اپنی خودداری کی بنار پر بادشاہ سے اس حد تک راہ و رسم پیدا نہ کر سکے جس حد تک ربیعہ
پیدا کر چکا تھا۔ جب ان دونوں کی واپسی کا وقت قریب آیا تو بادشاہ نے ان سے کہا کہ
تم اپنے ضروریات بتاؤ تا کہ انہیں پورا کر دیا جائے۔ مضر سمجھ رہے تھے کہ ربیعہ کو
ان پر ترجیح تو دی ہی جائے گی کہا کہ آپ جو مجھے دیں اس سے دو گنا زائد ربیعہ کو دیں
کیونکہ وہ رسن وسال میں مجھ سے بڑے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ ایسا ہی ہو گا۔ تم اپنے
ضروریات بیان کرو۔ کہا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری ایک آنکھ پھوڑ دی جائے۔
بادشاہ پہلے تو ان کی بات سن کر حیران ہوا اور پھر ان کے مقصد کو سمجھ کر مسکرایا
اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں دونوں سے یکساں برتاؤ کروں گا اور ایک کو دوسرے پر
ترجیح نہیں دوں گا یہ تھی مضر کی فراست کہ پہلے تو وہ بات کہی جو بادشاہ کے دل کو
لگی تھی اور پھر ایسی بات کہہ دی کہ وہ ان دونوں میں انصاف کرنے پر مجبور ہو گیا
اور اس طرح انہوں نے نہ اپنے حصہ میں کمی ہونے دی اور نہ اپنی قدرو منزلت میں ۔
اس فہم و فراست کے علاوہ آپ بڑے خوش گلو
اور خوش آواز تھے یہاں تک کہ حیوان بھی ان کی خوش آوازی سے متاثر ہوئے بغیر نہ
رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ اونٹ سے گر پڑے جس سے ہاتھ پر سخت چوٹ آئی اور پُر سوزلے میں
زبان سے نکلا یا یداہ یا یداہ (ہائے میرا ہاتھ ہائے میرا ہاتھ) اس آواز کو سن کر اُس پاس
کے چرنے والے اونٹ ان کے گرد جمع ہو گئے۔ جب ہاتھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا تو اونٹ پر
سوار ہونے کے بعد اپنی زبان کو نغمہ ریزہ رکھتے جس سے اونٹ جھومنے لگتا اور اس کے
قدموں میں تیزی آجاتی اسی سے عرب میں حدی خوانی کا رواج ہوا اور اسے رجز کا نام دیا گیا ۔ ان رجزیہ اشعار کے وزن میں اور اونٹ کی چال میں پوری
مطابقت و ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور یہی ہم آہنگی نیز رفتاری کی محرک ہوتی ہے اور
بعض حدی خوانوں نے تو مضر کے الفاظ کو حدی کا جز و قرار دیدیا ۔ چنانچہ ایک حدی
خواں کہتا ہے :-
يا هاديا يا هاديا و
یا یداه یایداه
محمد ابن عبد الله الا رزقی نے " اخبار مکہ" میں لکھا ہے کہ بنی جرہم کے
بعد آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی۔ نیکی و ہدایت کے سلسلہ میں اپنے بیٹوں کو وصیت
کرتے ہوئے فرمایا :-
"من يزرع شرا يحصداند امة خير الخير ا عجله فاحملوا
انفسكم على مكروهها فيما أصلحكم واصرفوھا عن هواها فيما أفسد كم فليس بين الصلاح
والفساد الاصبر ووقاية"
(تاریخ یعقوبی ج1 ص226)
"جو شر کا بیج ہوتا ہے وہ ندامت و شرمندگی سمیٹتا ہے۔ عمدہ بھلائی وہ ہے جو
فوراً ہو اپنے نفسوں کو ان ناگوار چیزوں پر اُبھارو جو تمہاری اصلاح و درستی کریں
اور ان پسندیدہ چیزوں سے روکو جو خرابی کا باعث ہوں اسلئے کہ صبر اور ضبط نفس ہی
وہ چیز ہے جو صلاح اور فساد کے درمیان حد فاصل ہے "
آپ نے دو فرزند چھوڑے ایک عیلان اور دوسرے الیاس ۔
الیاس ابن مضر :- آپ کا اصلی نام حبیب تھا اور جب پیدا ہوئے تھے تو مضر پر ضعیفی
دیاس کا عالم طاری تھا۔ اس بنا پر الیاس کے نام سے موسوم ہو گئے۔ والدہ کا نام
رباب بنت حیدہ تھا۔ مضر کے بعد قبائل عرب کے رئیس دسردار قرار پائے اور کبیر القوم
اور سید العشیرہ کے لقب سے یاد کئے گئے ان کی زندگی پر ملت ابراہیمی کا گہرا سایہ
تھا اور ایک ایک عمل دین حنیف کا آئینہ دار تھا۔ چنانچہ پیغمبراکرم ﷺنے ایمان کی
شہادت دیتے ہوئے فرمایا :
"لا تسبوا الیاس خانه کان مومنا"(سيرة حلبیہ – ج1ص17)
"الیاس کو برا نہ کہو اس لئے کہ وہ صاحب ایمان تھے"
اپنے حسن خدمات کے نتیجہ میں جتنی تو قیر وعظمت اور عزت و
شہرت انہوں نے حاصل کی اس کی مثال اس دور میں کہیں نظر نہیں آتی دیار بکری نے تحریر
کیا ہے :
"لم تزل العرب تعظم الیاس ابن مضر تعظيم أهل
الحكمة کلقمان واشباهه" ( تاریخ خمس ج1ص149 ) "عرب الیاس ابن مضر کی اسی طرح
تعظیم کرتے تھے جس طرح لقمان اور ان کے پایہ کے دوسرے حکما اور دانشمندوں کی"
قبائل عرب ان کی سوجھ بوجھ اور اصابت رائے پر مکمل اعتماد رکھتے تھے اور قبائلی
معاملات اور دوسرے نزاعی امور انہی کی صوابدید سے طےہوتے تھے۔ ان کی زندگی کا
درخشاں کارنامہ یہ ہے کہ اس تاریک دور میں جب کہ دین ابراہمی میں سے جو آثار رہ
گئے تھے وہ مٹتے اور ختم ہوتے جا رہے تھے نظر و فکر کی روشنی پیدا کی اور ملت
ابراہیمی کی تجدید کی کے اولاد اسمٰعیل کو اس کا پابند بنایا اور اس طرح دین حنیف
کی حفاظت اور ملت ابراہیمی کے تحفظ کا فریضہ ادا کیا یعقوبی نے تحریر کیا ہے :-
" کان اول من انکر علیٰ بنی اسمٰعیل ما غير وا من سنن اٰباء
هم و ظهرت منه امور جميلة حتى رضوا به رضا لم يرضوه باحد من ولد اسمٰعیل بعد ادد
فردهم الىٰ سنن اٰباء هم حتی رجعت السنة تامة علىٰ اولها" ( تاریخ یعقوبی، ج1ص 227)
"الیاس پہلی فرد ہے جس نے بنی اسمٰعیل کی اس روش پر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے
سنت آبائی کو بدل ڈالا ہے اور ایسے اچھے کام انجام دیئے کہ تمام لوگ اس سے اتنا
خوش ہوئے کہ ادد کے بعد اولاداسمٰعیل میں سے کسی سے اتنا خوش نہ ہوئے تھے ۔ اس نے
اولاد اسمٰعیل کو آبائی سنت کی طرف پلٹایا ، یہاں تک کہ تمام سنن و احکام، سابقہ شکل و صورت میں عود کر
آئے "
الیاس مرض سل میں مبتلا تھے ان کی اہلیہ لیلیٰ
بنت حلوان نے جو خندف کے لقب سے مشہور تھیں یہ قسم کھائی کہ اگر الیاس کو اس مرض سے شفا نہ ہوئی
اور وہ وفات پاگئے تو اپنی بیوگی کا زمانہ جنگلوں اور صحراؤں میں گزاریں گی اور کسی
چھت یا سایہ کے نیچے نہ بیٹھیں گی۔ جب الیاس مرض سے جانبر نہ ہو سکے تو لیلیٰ صحرا
و بیابان کی طرف نکل گئیں اور وہیں رونے
دھونے میں اپنا رنڈا پا کا ٹا خصوصا ًپنجشنبہ کے دن طلوع آفتاب سے لے کر غروب
آفتاب تک نوحہ وزاری میں گزارتی تھیں۔ کیونکہ پنجشنبہ کے دن الیاس فوت ہوئے تھے
آخر اسی غم و اندوہ اور قلق واضطراب میں اپنی زندگی کے دن گزار دیئے۔
الیاس نے اپنے بعد تین فرزند چھوڑے۔ عمرو، عامر اور عمیر۔ یہ تینوں بالترتیب مدرکہ
، طابخہ اور قمعہ کے ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔ الیاس کے بیٹے اور ان کی طرف
منسوب ہونے والے قبائل بنی خندف کہلاتے ہیں۔
مدرکہ ابن الیاس :- ان کا اصلی نام عمرو اور کنیت ابوالہذیل تھی اور والدہ کا
نام لیلیٰ بنت حلوان قضاعیہ تھا۔ مدرکہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ واقعہ بیان کیا
جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے والد الیاس بال بچوں کو لے کر صحرا کی طرف گئے۔ جب
وہاں پر منزل کی تو اونٹوں کی قطار میں ایک خرگوش گھس آیا اور اونٹ بدکنے لگے۔
عمرو نے اس خرگوش کا پیچھا کیا اور اسے پا لیا۔ اس لئے ان کا نام مدر کہ (پا لینے
والا) رکھ دیا گیا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ نام اس بنا پر تجویز ہوا کہ انہوں نے
اپنے اجداد کے تمام محاسن و کمالات کو پا لیا تھا۔ چنانچہ دیا بکری لکھتے ہیں:۔
"انما سمى مدركة لانه ادرك کل عز
کان دی اٰبائہ" (تاریخ خمیس ج1ص150)
"ان کا نام مدرکہ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کی تمام عزتوں کو حاصل کر لیا تھا"
آپ اپنے بلند پایہ اجداد کی عظمتوں کے امین اور ان کی رفعتوں کے وارث تھے
اور اس شرف و امتیاز کی وجہ سے عرب کی سیادت و ریاست کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یعقونی
نے لکھا ہے:۔
"کان مدرکۃ ابن الیاس سید ولد نزار قد بان فضلہ و ظھر مجده
" ( تاریخ یعقوبی –ج1ص229)
"مدرکہ ابن الیاس اولاد نزار کے سردار تھے اور ان کی فضیلت عیاں اور بزرگی
نمایاں ہے"
آپ نے اپنے بعد دو فرزند چھوڑے : ہذیل اور خزیمہ میں۔
خزیمہ ابن مدرکہ :۔ ان کی کنیت ابوالاسد اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت اسلم قضاعیہ
تھا۔ دین حنیف کی پابندی اس سلسلہ عالیہ کا شعار تھا۔ آپ بھی اپنے آباؤ اجداد کی
طرح مسلک ابراہیمی پر گامزن رہے، عرب میں قبائلی حکومت کا رواج تھا اور پشتوں سے یہ
حکومت اس خاندان میں چلی آرہی تھی۔ آپ بھی قبائل عرب کی سرداری و سربراہی کے منصب
پر فائز ہوئے ۔ یعقوبی نے لکھا ہے کہ آپ عرب کے فرمانرواؤں میں ایک متاز فرمانروا
اور بزرگی و فضیلت کے جوہر سے آراستہ تھے۔ عرب ان کے کمال فضیلت کے معترف اور ان کی
رفعت و سر بلندی کے سامنے سر نیاز خم کئے ہوئے تھے۔
آپ نے تین فرزند چھوڑے۔ اسد، ہون اور کنانہ ۔
کنانه ابن خزیمہ :۔ آپ کی کنیت ابو نضر اور والدہ کا نام عوانہ بنت سعد تھا۔ خزیمہ
کے بعد قبائل عرب کی سرداری ان کے پائے نام ہوئی۔ اس سرداری وریاست کے ساتھ محاسن
و مکارم میں بھی اپنی مثل و نظیر نہ رکھتے تھے اور اتنی خوبیوں کے مالک تھے کہ ان
کا شمار نہیں ہو سکتا۔ عرب ان کے علم و فضل اور جودو سخا کی وجہ سے انہیں انتہائی
عزت و احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے اور ان کی رفعت و بلندی کا اعتراف کرتے تھے ۔
علامہ حلبی نے لکھا ہے :۔
"كان شيخا حسنا عظیم القدر تحج الیہ العرب لعلمہ
وفضلہ"(سیرت حلبیہ ج1ص16)
" کنانہ بلند کردار و بلند منزلت
بزرگ تھے اور اپنے علم و فضل کی وجہ سے مرجع عرب تھے "
مورخین نے ان کے جو دو کرم کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے تھے۔
بلکہ کسی نہ کسی کو اپنا مہمان بناتے اور اس کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے۔ اور اگر
کوئی ساتھ کھانے والا نہ ملتا تو ایک لقمہ خود کھاتے اور ایک لقمہ کسی پتھر کو
مہمان تصور کرتے ہوئے اس کے آگے ڈالتے جاتے اور یوں بقول شاعر:"وللارض من کاس الکرام نصیب "اپنے تقاضائے کرم کو پورا فرماتے ۔
ان کے حکیمانہ کلمات میں سے چند کلمے یہ ہیں
:-
"رب صورة
تخالف المخبرة وقد غرت بجمالھا واختبر قبح فعالھا واحذر الصورو اطلب الخبر"
(سیرت حلبیہ ج1ص16)
" بہت سی صورتیں اپنے ظاہری جمال سے فریب دیتی ہیں حالانکہ ان کا ظاہر کچھ ہوتا ہے اور باطن
کچھ ۔ برے افعال کو جانچو۔ ظاہری صورت پر نہ جاؤ اور سیرت پر نظر رکھو "
آپ کی متعدد اولادیں تھیں جن میں سے نضر نور نبوت کے حامل و امین قرار پائے ۔
نضر ابن کنانہ :- آپ کا اصل نام تو قیس
تھا۔ مگر حسن و جمال اور چہرے کی رونق و شادابی کی وجہ سے نضر (خوشرو) کے نام سے
مشہور ہوئے۔ کنیت ابو یخلد اور والدہ کا نام برہ بنت مر تھا۔ بعض مورخین کا خیا ہے
کہ پہلے پہل انہی کا لقب قریش قرار پایا۔
اور آپ ہی کی نسل جو مختلف شاخوں اور قبیلوں میں تقسیم ہوئی۔ قریش کہلاتی ہے۔ انہیں
قریش کے لقب سے یاد کئے جانے کے چند وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ آپ
کے قبیلہ و خاندان کے افراد صبح و شام آپ کے وسیع دستر خوان پر جمع ہوتے تھے اس
اجتماع کی وجہ سے آپ کا لقب قریش ہوا۔ اس لئے کہ تقرش کے معنی یکجا ہونے کے ہیں۔
اور ایک وجہ یہ ہے کہ آپ فقراء و مساکین کی ضروریات کا ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھوج لگاتے
اور پھر انہیں پورا کرتے تھے اس بناء پر ان کا لقب قریش پڑ گیا کیونکہ تقریش کے
معنی تلاش و تشخص کے ہیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ کشتی پر سوار ہو کر
کہیں جا رہے تھے کہ آپ کے ہمراہیوں نے ایک بہت بڑے دریائی جانور کو جسے قریش کہا
جاتا تھا دیکھا آپ نے تلوار سے حملہ کر کے اُسے مار ڈالا۔ لوگ اسے اٹھا کر مکہ میں
لے آئے اور کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر رکھ دیا جو اسے دیکھتا حیرت سے کہتا قتل النضر قریشا نضر
نے قریش کو مار ڈالا۔ اس بنار پر خود انہی کا نام قریش پڑ گیا۔ چنانچہ ایک شاعر نے
کہا ہے :
و قريش هي التي تسكن البحر بها
سمیت قریش قريشا
( ترجمہ) "قریش ایک حیوان ہے جو سمندر میں رہتا ہے اور
اسی کے نام پر قریش کا نام قریش ہوا"
ابو حنیفہ دینوری نے اخبار الطوال میں لکھا ہے کہ جب سکندر اپنے فتوحات کے سلسلہ میں
یمن سے مکہ معظمہ
میں وارد ہوا تو نضر بن کنانہ سے ملاقات کی۔ اس وقت بنی
خزاعہ مکہ کے اقتدار پر قابض تھے سکندر نے بنی خزاعہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ کو چھوڑ
کر کہیں اور چلے جائیں اور مکہ کا نظم ونسق اور حرم کی نگہداشت نضر اور ان کے بھائیوں
سے متعلق کی اور معد بن عدنان کی اولاد کو ہدایا و انعامات سے نوازا۔
نضر نے حکومت و ریاست پر فائز ہونے کے بعد اخلاقی و معاشی اصلاح پر توجہ دی۔ بے راہرویوں
پر کڑی نظر رکھی ظلم و استبداد کو مٹایا اور عظمت و بزرگی میں بڑا نام پیدا کیا۔
بعض مورفین نے لکھا ہے کہ قتل پیر سو100 اونٹوں کی دیت کا نفاذ انہی نے کیا تھا۔
آپ نے اپنے بعد دو فرزند چھوڑے۔ مالک اور یخلد
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ایک فرزند اور بھی تھا جس کا نام صلت تھا۔
مالک ابن نضر:۔ آپ کی کنیت ابو الحارث اور والدہ کا نام عاتکہ بنت عدوان
تھا بعض مورخین نے ماں کا نام عکرشہ لکھا ہے اور بعض نے یہ وضاحت کی ہے کہ عاتکہ
نام ہے اور عکرشہ لقب ہے۔ آپ اپنے والد نضر کے بعد عرب کے با اثر اور ممتاز حکمران
تسلیم کئے گئے۔ دیار بکری نے لکھا ہے :-
" انما سمى مالكا لانه
ملك العرب"( تاریخ خمیس - ج ۱ ص 152)
"آپ کا نام
مالک اسی بناء پر تھا کہ آپ اقتدار عرب کے مالک تھے "
آپ دین ابراہیمی کے پیرو اور اپنے اسلاف کی راہ پر گامزن تھے ۔ اپنے بعد تین فرزند
چھوڑے حارث ،شیبان اور فہر ۔
فهر ابن مالک : آپ کی کنیت ابو غالب اور والدہ کا نام جند لہ بنت حارث جبر
ہیمہ تھا۔ بعض مورخین کے نزدیک فہر لقب اور اصل نام قریش تھا۔ اور انہی پر سلسلہ
قریش منتہی ہوتا ہے اور انہی کی اولاد قرش ہے ۔ ابن عبدربہ نے تحریر کیا ہے :-
"اما قبائل قريش فانما تنتهى الى فهر ابن مالك لا
تجاوزه" (عقد الفرید-ج1ص209)
"قبائل قریش فہر ابن مالک پر منتہی ہوتے ہیں اور ان سے آگے نہیں بڑھتے "
آپ فضل و کمال کے جو ہر سے آراستہ اور
اپنے والد کی زندگی ہی میں اپنی عظیم شخصیت کی تعمیر کر چکے تھے۔ والد کی رحلت کے
بعد ان کے قائم مقام قرار پائے اور عرب کی ریاست و امارت پر فائزہوئے ۔ علم و فضل
میں نام پیدا کیا اور شجاعت و بسالت میں شہرہ آفاق ہوئے ۔ انہی کے دور حکومت میں
حاکم یمن حسان ابن عبد کلال ، حمیر یوں اور یمینیوں پر مشتمل ایک لشکر گراں لے کر
مکہ پر حملہ آور ہوا تا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کر کے اس کے پتھر وغیرہ میں منتقل
کر دے اور وہیں پر خانہ کعبہ تعمیر کرے۔ اور اس طرح مکہ کی تقدیس دمرکز بیت کو ختم
کر کے یمن کو ادائے حج کا مقام قرار دے۔
جب فہر کو یمنی لشکر کے ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے قبائل عرب کو جمع کرکے ایک
لشکر ترتیب دیا اور اس کے مقابلہ کے لئے میدان میں اتر آئے ۔ دونوں فریق میں بڑی
خونریز جنگ ہوئی جس میں فہر کا ایک بیٹا حارثہ بھی کام آ گیا۔ آخر یمنیوں کو شکست
فاش ہوئی ۔ حسان گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید و بند میں رہنے کے بعد فدیہ دے کہ آزاد
ہوا اور یمن جاتے ہوئے راستہ میں مرکھپ گیا۔ اور اس طرح قدرت نے دشمن کعبہ کو تباہ
و برباد اور اس کے لشکر کو تر بتر کر کے نگہبان کعبہ کی سطوت و ہیبت کا سکہ دلوں
پر بٹھا دیا ۔
آپ کے حکیمانہ کلمات میں سے ایک کلمہ یہ
ہے جو اپنے فرزند غالب کو درس قناعت دیتے ہوئے فرمایا ۔
"قليل ما في
يديك اغنى لك من كثير اخلق وجهك وان صار
اليك" (سيرة حلبیہ- ج 1ص16)
"تمہارے ہاتھوں میں جو تھوڑا سا مال ہے وہ اس مال فراواں سے کہیں بہتر ہے جس
سے تمہاری آبرو میں فرق آئے ۔"
فہر کی چار اولا دیں تھیں۔ غالب تارب ،
حارث اور اسد ۔
غالب ابن فہر :- آپ کی کنیت ابوتمیم اور والدہ کا نام لیلی بنت حارث تھا۔
اپنے والد فہر کے بعد قبائل عرب کی حکومت پر فائز ہوئے اور شرف وعزت کے اعتبار سے
اتنا بلند مقام حاصل کیا کہ آسمان عز و جاہ کے نیر تاباں بن گئے آپ کے دو بیٹے تھے
۔ تمیم اور لوی۔
لوی ابن غالب :- لوی لای کی تصغیر ہے جس کے معنی نورو درخشندگی کے ہیں ۔ آپ کی کنیت ابو کعب اور والدہ
کا نام عاتکہ بنت یخلد تھا۔ اپنے والد کے بعد قبائل عرب کے سربراہ منتخب ہوئے اور
فضل کمال میں نمایاں امتیاز اور عز و شرف میں بلند مقام حاصل کیا۔ حرم کے باہر ایک
کنواں کھودا جو ایسیرہ کے نام سے موسوم تھا۔ اس سے مقامی و غیر مقامی سب سیراب
ہوتے تھے۔ آپ کے چار بیٹے تھے ۔ کعب ، عامر، سامہ اور عرف ۔
کعب ابن لوی -:- آپ کی کنیت ابو حصیص اور والدہ کا نام مادیہ بنت کعب خزاعیہ
تھا۔ آپ کے اخلاق و اطوار پاکیزہ اور کردار انتہائی بلند تھا۔ مظلوموں کی داد رسی
کرتے ، کمزوروں اور مصیبت زدوں کی دستگیری فرماتے۔ عرب کے مسلم الثبوت سرداران قریش
کی عظمتوں کے مرکز اور اپنے خانوادہ میں سب سے بڑھ کہ ذی شرف و بلند مرتبت تھے۔ ان
کی عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ ان کی وفات سے سنہ کا اجرا ہوا جو عام الفیل تک باقی
رہا۔ اور عرب سنہ کا اجرا کسی عظیم شخصیت کے اٹھ جانے یا کسی غیر معمولی حادثہ کے
رونما ہونے سے کرتے تھے۔ یہ سنہ ۵۲۰ برس تک رائج رہا اور یہی آپ کی وفات اور واقعہ فیل کا درمیانی
عرصہ ہے ۔ آپ سے قبل عرب روز جمعہ کو عروبہ کہا کرتے تھے۔ آپ نے عروبہ کا نام جمعہ
تجویز کیا ، اور اس میں اجتماعات کی بنیاد ڈالی۔ ان اجتماعات میں خطبہ دیتے اور
خطبہ میں " اما بعد " سب سے پہلے آپ ہی نے استعمال کیا ۔ البتہ خطوط و
مکاتیب میں تس ابن ساعدہ ایادی نے اسے
لکھنا شروع کیا ۔ بہر حال آپ اپنے دور کے ایک سحر بیان خطیب تھے۔ جمعہ کے خطبوں کے
علاوہ ایام حج میں جب اطراف و جوانب سے لوگ سمٹ کر مکہ میں جمع ہوتے تھے آپ کے
خطبات فضائے بطحاء میں گونجا کرتے تھے ۔ ان خطبوں میں وفائے عہد ، صلہ رحم، حسن
سلوک اور بیت اللہ کی تعظیم و تکریم کی تلقین کرتے اور پیغمبر آخرالزمان کی آمد کی
نوید سناتے۔
چنانچہ ایک خطبہ میں فرمایا :-
"صلوا ارحامكم
و احفظوا اصہا رکم و اوفو بعہد کم وثمروا ا اموالکم فانها قوام مروا تکم ولا
تصونوھا عما يجب عليكم واعظموا هذا الحرم وتمسكوا نبا ویبعث منه خاتم الانبیاء
بذلک جاءموسیٰ و عیسیٰ۔"
(انساب الاشرف-ج1ص41)
"صلہ رحمی کرو، اسببی قرابتوں کا
لحاظ رکھو، وعدہ پورا کرو اور اپنے مال کو تجارت سے بڑھاؤ اس لئے کہ مال ہی سے
ثروت و حسن سلوک کو باقی رکھا جا سکتا ہے جہاں مال صرف کرنے کی ضرورت ہو وہاں صرف
کرنے میں دریغ نہ کرو۔ اس حرم کی عظمت کو
پہچانو اس سےوابستہ رہو۔ عنقریب اس سے ایک عظیم خبر ظاہر ہوگی اور اسی مقام سے
خاتم الانبیا مبعوث ہوں گے۔ اور یہی خبر موسیٰ و عیسیٰ لے کر آئے تھے"
آپ کے تین فرزند تھے ۔ مرہ ، عدی اور ہصیص ۔
مره ابن کعب :- آپ کی کنیت ابو یقظہ اور والدہ کا نام مخشیہ بنت شیبان
تھا۔ عرب کے بلند پایہ سردار اور نامور قائد تھے۔ آپ نے عرفہ کے قریب ایک کنواں
کھودا جسے الروا کہا جاتا تھا اور اہل مکہ اور اُدھر سے گزرنے والوں کو سیراب کرتا
تھا۔ آپ کے تین فرزند تھے ۔ کلاب ، یقظہ اور تیم ۔
کلاب ابن مرہ :۔ آپ کا اصلی نام حکمیم کنیت ابوزہرہ اور والد کا نام ہند
بنت سریر تھا۔ کلاب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ اکثر کلاب (کتوں) کے ساتھ شکار کھیلا
کرتے تھے ۔ قبائل عرب میں ان کی شخصیت بلند اور اہم تھی۔ آبائی شرف کے ساتھ مادری
نسبت سے بھی شرف و امتیاز رکھتے تھے۔ فہم و فراست اور تدبر و اصابت رائے میں مشہور تھے عرب اپنے اختلافات مٹانے کے
لئے انہی کی طرف رجوع ہوتے اور انہی کے مشوروں پر عمل کرتے۔ آپ نے رفاہ عامہ کے
لئےمکہ کے باہر تین کنوئیں خم، رم اور حفر کھود ے۔
آپ کے دو فرزند تھے ۔ زہرہ اور قصی۔
قصی ابن کلاب :- آپ کا اصلی نام زید رکنیت ابو مغیرہ اور والدہ کا نام
فاطمہ بنت سعد تھا۔ کلاب ابن مرد کی وفات کے بعد فاطمہ بنت سعد نے ربیعہ ابن حرام
عذری سے عقد ثانی کر لیا اور اپنے شوہر کے ہمراہ بنی عذرہ کی بستیوں کی طرف چلی گئیں۔
کلاب کا بڑا بیٹا زہرہ جوان تھا وہ مکہ ہی میں رہا اور قصی کمسن ہونے کی وجہ سے
اپنی ماں کے ساتھ چلے گئے اور چونکہ اپنے افراد خاندان سے جدا اور مکہ سے دور ہو
گئے تھے اس لئے قصی( دور افتادہ) کے نام سے یاد کئے جانے لگے اور اسی نام سے شہرت
عام حاصل کی ۔ قصی بنی عذرہ ہی میں پہلے بڑھے اور اسی قبیلہ کی ایک فرد شمار ہوتے
رہے ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ بنی عذرہ کے ایک شخص سے کسی بات پر نزاع ہو گئی اس
نے طنز آمیز لہجہ میں کہا کہ تم ہمارے قبیلہ میں آشامل ہوئے ہو ورنہ اس قوم و قبیلہ
سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قصی نے کہا کہ پھر کس قبیلہ سے ہوں ؟ کہا کہ یہ اپنی
ماں سے دریافت کرو قصی کبیدہ خاطر ہو کر اپنی والدہ کے پاس آئے اور واقعہ بیان کر
کے ان سے اپنے قوم و قبیلہ اور حسب و نسب کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا :-
"يا بني انت اكرم منه نفسا و ابا - انت ابن کلاب ابن مرة و قومك بمكة عند
البيت الحرام"
( تاریخ کامل - ج 2ص11)
"اے بیٹے تم ذاتی جوہر کے لحاظ سے اور باپ کے اعتبار سے اس عذری سے کہیں
زیادہ شریف تر اور باوقار ہو تم کلاب ابن مرہ کے بیٹے ہو اور تمہارا قبیلہ
مکہ میں خانہ کعبہ کے پاس آباد ہے "
قصی کو جب معلوم ہوا کہ ان کا آبائی وطن مکہ
ہے تو انہوں نے وہاں جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ فاطمہ بنت سعد نے کہا میں تمہیں روکنا
نہیں چاہتی بلکہ تمہیں وہاں جانا ہی چاہیئے ۔ وہیں تمہارے بھائی بند اور عزیز و
اقارب ہیں کچھ دن انتظار کرو جب بنی قضاعہ کا قافلہ حج کے لئے روانہ ہو گا تو تمہیں
ان کے ہمراہ بھیج دیا جاے گا۔ جب حج کا زمانہ قریب آیا تو قصی اپنے سوتیلے بھائی
زواج ابن ربیعہ کے ہمراہ بنی قضاعہ کے قافلہ میں شریک ہو کر
مکہ آگئے اور اپنے بھائی زہرہ ابن کلاب کے ہاں مقیم ہوئے۔ اس وقت مکہ بنی خزاعہ کے
زیر اقتدار تھا اور حلیل ابن حبیسہ خزاعی مسند فرمانروائی پر متمکن تھا۔ قصی نے
مکہ میں قیام کرنے کے بعد حلیل سے اس کی بیٹی حبی کارشتہ طلب کیا۔ حلیل ان کی ذاتی و خاندانی
شرافت سے متاثر تو تھا ہی۔ اس نے فورا رشتہ
کو قبول کر لیا۔ اور مراسم نکاح کے بعد اپنی بیٹی کو رخصت کر دیا۔ حبی کے بطن سے
قصی کے چار فرزند پیدا ہوئے جو عبد مناف ،عبد العزیٰ، عبد القصی اور عبد الدار کے
ناموں سے موسوم ہوئے ۔ جب یہ بچے جوان ہوئے تو حلیل نے کہا کہ قصی کے بیٹے میرے بیٹے
ہیں کیونکہ وہ میری دختر کے فرزند ہیں لہذا آئندہ وہی خانہ کعبہ کے متولی اور مکہ
کے حکمران ہوں گے چنانچہ قصی کو اپنا وصی و جانشین قرار دیا ۔ ابن سعد نے لکھا ہے
:-
" فاوصى بولاية البيت والقيام بامرمکۃ الی قصی و قال
انت احق بہ"(طبقات-ج1ص68)
"حلیل نے وصیت کی کہ خانہ کعبہ کی تولیت اور مکہ کی امارت قصی سے متعلق ہوگی
اور ان سے کہا کہ تم ہی اس کے حقدار ہو"
کتب تاریخ میں یہ روایت بھی درج ہے کہ جب حلیل کا وقت آخر آیا تو اس نے وصیت کی کہ
خانہ کعبہ کی تولیت اس کی بیٹی حبی سے متعلق ہوگی اور ابو غبشان الملکانی اس منصب
میں اس کا شریک ہو گا چنانچہ خانہ کعبہ کا دروازہ ایک دن ابو غبشان کھولتا اور ایک
دن حبی کی طرف سے قصی۔ جب اس طریق کار پر عمل کرتے ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا تو قصی
نے حبی سے کہا کہ تولیت کعبہ کی صحیح حقدار اولاد اسمعیل ہے لہٰذا یہ منصب عبد
الدار کے حوالہ کر دینا چاہیئے تاکہ تولیت کعبہ اولاد اسمعیل ہی کے ہاتھوں میں رہے
۔ حبی نے کہا کہ عبد الدار میرا بیٹا ہے میرا اس سے کیا انکار ہو سکتا ہے۔ لیکن اس
منصب میں ابو غبشان میرا برابر کا شریک ہے اور اس کا رضامند ہونا مشکل ہے۔ قصی نے
کہا کہ اس کی رضا مندی و نارضامندی کو مجھ پر چھوڑیے میں اس سے نمٹ لوں گا۔ جب حبی
اپنے بیٹے کے حق میں تولیت سے دستبردار ہونے پر رضا مند ہو گئیں تو قصی نے طائف کا
رخ کیا۔ جہاں ابو غبشان ٹھہرا ہوا تھا۔ طائف میں وارد ہونے کے بعد ایک رات اس کے
ہاں گئے دیکھا کہ محفل ناؤ نوش گرم ہے شراب کا دور چل رہا ہے اور ابو غبشان نشر میں
بدمست پڑا ہے۔ آپ نے اُسے جھنجھوڑا اور تولیت کعبہ کے سلسلہ میں اس سے بات چیت کی
اور کچھ مول تول کے بعد ایک اونٹنی اور ایک مشکیزہ شراب کے عوض خانہ کعبہ کی تولیت
اس سے خرید لی۔ جب نشے سے اسے ہوش آیا تو اپنے کئے پر بہت پچھتایا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ تولیت اس کے
ہاتھوں سے جاتی رہی اور کچھ بنائے بنتی نظر نہ آتی تھی قصی اپنے مقصد میں کامیاب
ہو کر واپس آگئے ۔ اور بھرے مجمع میں خانہ کعبہ کی کلید عبدالدار کے سپرد کر دی۔
جب بنی خزاعہ وہ بنی بکر نے یہ دیکھا کہ ابو غبشان کی حماقت و بدستی کے نتیجہ میں
خانہ کعبہ کی تولیت ان کے ہاتھوں سے جاتی رہی ہے اور قضی حسن عمل سے کامیاب ہو گئے
ہیں تو وہ تولیت کعبہ کی واپسی پر مصر ہوئے اور لڑنے مرنے پہ اتر آئے ۔ قصی بھی ان
کے مقابلہ میں ہٹے نہ تھے انہوں نے بھی جنگ کی ٹھان لی۔ قریش اور بنی کنانہ تو ان
کے ساتھ تھے ہی زراج ابن ربیعہ اور اس کے بھائی بھی بنی قضاعہ کی ایک جماعت کے
ساتھ ان کی مددکو پہنچے گئے۔ فریقین میں جنگ چھڑ گئی ۔ جب دونوں طرف کے اچھے خاصے
آدمی مارے گئے تو کچھ لوگ بیچ میں پڑے اور یہ طے پایا کہ فریقین کی رضا مندی سے کسی
کو ثالث مقرر کیا جائے اور اس کے فیصلہ پر عملدرآمد کیا جائے۔ چنانچہ یعمر ابن عوف
کو ثالث قرار دیا گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تولیت اور مکہ کی امارت پر
قصی کا حق فائق ہے ان کے ساتھیوں میں سے جو آدمی مارے گئے ہیں ان کا خونبہا ادا کیا
جائے اور بنی خزا نہ و بنی بکر میں سے ہوقتل
ہوئے ہیں ان کا خون رائیگاں تصور ہو۔ اس فیصلہ
پر عملدر آمد ہوا اور قصی بلا شرکت غیرے حرم کےعہدوں پر فائز ہوئے اور مکہ کے خود
مختار حکمران تسلیم کئے گئے ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں:۔
" ولى قصى البيت و امر مكة و جمع قومہ من منازلھم الی مکۃ و تملک علی قومہ و
اھل مکۃ فملکوہ فکان قصی اول بنی کعب اصاب مدکا اطاع لہ بہ قومہ فکانت الیہ
الححابۃ والسقایۃ و الرفادۃ و الندوۃ و اللواء فحازشرف مکۃ کلہ۔" (تاریخ خمیس ج1ص155)
"قصی خانہ کعبہ کے متولی اور مکہ کے حکمران ہوئے انہوں نے اپنے قوم و قبیلہ کو مختلف جگہوں سے مکہ میں
جمع کیا اور اپنی قوم اور مکہ والوں پر اقتدار حاصل کیا اور سب نے ان کے اقتدار کو تسلیم کیا۔ کعب کی ادلاد میں
قصی پہلے حکمران ہیں جن کے سامنے ان کی قوم نے سر اطاعت خم کیا۔ کلیدداری حاجیوں
کو پانی پلانے اور کھانا کھانے کی خدمت مجلس کی صدارت اور شکر کی علمبرداری
ان سے متعلق ہوئی ۔ غرض وہ سارے عہدے حاصل
کئے جو مکہ میں شرف و امتیاز کا باعث تھے "
خانہ کعبہ کی تولیت اولاد اسمٰعیل ہی کے پائے نام تھی۔ چنانچہ اسمٰعیل کے بعد ان
کے فرزند نابت خانہ کعبہ کے متولی و نگران
قرار پائے ۔ لیکن نابت کے بعد یہ تولیت بنی اسمٰعیل کے ہاتھوں سے نکل گئی اور نابت
کے ننھیال بنی جرہم کی طرف منتقل ہو گئی۔ بنی جرہم اقتدار کے نشہ میں کھو کر ظلم
وستم پر اتر آئے اور جوں جوں اُن کے اقتدار کی بنیادیں مضبوط ہوتی گئیں اُن کے مظالم
بڑھتے گئے۔ ان کے ہاتھوں نہ لوگوں کی عزت محفوظ تھی اور نہ ان کے املاک و اموال ۔
آخر دوسری صدی عیسوی میں جب یمن سیلاب کی زد میں آیا تو خزاعہ نامی ایک شخص یمن
سے مکہ چلا آیا۔ اس نے رفتہ رفتہ اتنی قوت و طاقت بہم پہنچائی کہ وہ مکہ کے اقتدار
پر قابض ہو گیا اور اس طرح بنی خزاعہ کی سلطنت کی بنیاد پڑی جو تقریباً دو سو برس
تک قائم رہی۔ خزاعہ نے مکہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں کو باہر
نکال دیا اور اولاد فہر کو بھی اطراف و جوانب میں دھکیل دیا۔ جب بنی خزاعہ سے
اقتدار قصی کی طرف منتقل ہوا تو انہوں نے اولاد فہر کو جو پہاڑوں کے دامنوں اور
صحراؤں میں بکھری ہوئی تھی اور خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرتی تھی جمع کر کے
مکہ کے مختلف حصوں میں آباد کیا اوران میں
اتحاد و یکجہتی پیدا کی۔ اسی جمع آوری کی وجہ سے مجمع (جمع کنندہ) کے لقب سے یاد کئے گئے ۔ چنانچہ
حذافہ ابن غانم نے اپنے اس شعر میں اس کا تذکرہ کیا ہے : -
ابو کم قصى كان يدعى مجمعاً به جمع
الله القبائل من فھر
"تمہارے باپ قصی
وہ ہیں جو مجمع کے لقب سے پکارے جاتے تھے
اور انہی کے ذریعہ اللہ نے فہر کی مختلف شاخوں کو ایک جگہ جمع کیا"
اس جمع آوری کی وجہ سے آپ کا لقب قریش پڑ گیا۔ کیونکہ قریش تقریش سے ماخوذ ہے اور
تقریش کے معنی جمع اور یکجا کرنے کے ہیں۔ اگر چہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ نام کس سے
چلا اور پہلے پہل کون اس لقب سے یاد کیا گیا
۔ بعض تاریخ نگاروں کا نظریہ یہ ہے کہ مضر کی اولاد قریش ہے اور بعض کا خیال ہے کہ
الیاس کی اولاد قریش ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ لقب پہلے پہل نضر بن کنانہ کو
ملا اور ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ لقب فہر بن مالک کو ملا۔ لیکن ارباب تحقیق
کا نظریہ یہی ہے کہ یہ لقب سب سے پہلے قصی کو ملا اور انہی کی اولاد قریش کہلا سکتی
ہے۔ چنا نچہ علامہ طبری نے لکھا ہے :-
" لما نزل قصى الحرم وغلب جب قصی حرم وغلب علیہ فعل افعالاجمیلۃ فقیل لہ القرشی فھو
اول من سمی بہ" (تاریخ
طبری-ج2ص23)
"جب قصی حرم میں وارد ہوئے اور اقتدار حاصل کیا تو عمدہ کارنامے انجام دیئے۔
اس وجہ سے انہیں قرشی کہا جانے لگا اور سب سے پہلے انہی کا نام قرشی قرار
پایا"
عبد الملک ابن مروان نے محمد ابن جبیر سے دریافت کیا کہ قریش کو کب سے قریش کہا
جاتا ہے ؟ کہا کہ جب سے وہ حرم میں آباد ہوئے قریش ہی کہلاتے رہے۔ اس لئے کہ قریش
تقرش سے ماخوذ ہے اور تقریش کے معنی یکجا ہونے کے ہیں ۔ عبد الملک نے کہا :-
"ما سمعت هذا ولكن سمعت ان قصیا کان یقال لہ القرشی ولم تسم قریش
قبلہ"
(طبقات ابن سعد-ج1ص17)
"میں نے تو ایسا نہیں سنا۔بلکہ میرے سننے میں یہ آیا ہے کہ قصی کو قرشی کہا
جاتا تھا اور اس سے پہلے کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا گیا"
خود ابن سعد کی بھی یہی رائے تھی چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں:-
"بقصی سمیت قریش قریشا و کان یقال للھم قبل ذلک بنوا
لنضر" (طبقات-ج1ص17)
قصی کی وجہ سے قریش کو قریش کہا جاتا ہے ورنہ ان سے پہلے وہ بنو نضر کہلاتے
تھے"
بہر حال قصی نے اولاد فہر کو خانہ کعبہ کے جوار میں بسا کر ان کی عظمت رفتہ کو پھر
سے زندہ کیا اور انہیں متمدن زندگی سے ہمکنار کر کے قدرو منزلت کی انتہائی رفعتوں
پر پہنچا دیا۔ اسی بنا پر اولاد فہر اور دوسرے قبائل انہیں عظمت و احترام کی
نگاہوں سے دیکھتے اور ان کے ہر حکم کے سامنے اس طرح سرتسلیم خم کرتے جس طرح دینی و
مذہبی احکام کے آگے سر جھکایا جاتا ہے۔ بلاذری نے لکھا ہے :-
" کان امر قصی عند قریش یعملون به ولا يخالفونه " (انساب الاشراف-ج1ص52)
"قریش کے نزدیک قصی کا ہر دین و مذہب کے حکم کا درجہ رکھتا تھا جس پر دہ عمل
پیرا ہوتے اور سرمو اس کی مخالفت نہ کرتے
اور ا ولاد فہر کو بسانے اور یکجا کرنے کے
علاوہ آپ نے اپنے دور اقتدار میں سقایہ و ر فادہ کے عہد ےقائم کئے تاکہ زائران بیت اللہ کو
کھانا، پانی اور دوسری آسائشیں مہیا ہو سکیں۔ چنانچہ اہل مکہ کے اشتراک عمل سے
دورو دراز سے آنے والے حاجیوں کو کھانا کھلاتے، پانی پلاتے اور ان کے دوسرے ضروریات
و حوائج کا خیال رکھتے اور اہل مکہ کو حجاج کی خدمت واعانت پر آمادہ کرتے ہوئے
اپنے خطبات میں فرماتے :-
"انکم جیران الله واهل بيته وان الحاج ضيف الله وزوار
بیتہ وهم احق الضيف ناجعلوا لهم طعاما و
شرا با ایام الحج" (تاریخ کامل- ج ۲ ص14)
"تم لوگ اللہ کے ہمسائے اور اس کے حرم میں بسنے والے
ہو یہ حجاج اللہ کے مہمان اور اس کے گھر کے زائر ہیں اور سب مہمانوں سے بڑھ کر عزت
و تکریم کے مستحق، لہٰذا حج کے دنوں میں ان کے کھانے اور پینے کا سرو سامان
کرو"
آپ نے اپنی متحرک و باعمل زندگی میں بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ چنانچہ
خانہ کعبہ کی عمارت کو گروا کر از سر نو تعمیر کروایا اور اس پر کھجور کی لکڑیوں
کی چھت ڈلوائی - عرفات و منٰی کے درمیان ایک
عمارت تعمیر کی اور اسے مشعرالحرام کے نام سے موسوم کیا۔ ایام حج میں اس پر چراغ
جلائے جاتے تھے ۔ تاکہ حجاج کو وہاں تک
پہنچنے میں آسانی ہو۔ ابن عبد ربہ نے تحریر کیا ہے :-
"هو الذي بنى المشعر الحرام كان يسرج عليه أيام الحج" (عقدالفرید-ج2ص209)
"قصی نے مشعرالحرام تعمیر کیا جس پر حج کے دنوں میں چراغ جلائے جاتے تھے"
مزدلفہ میں رات کے وقت آگ کے روشن کرنے کا انتظام کیا تا کہ عرفات سے آنے والے حاجیوں
کے قافلے منزل سے بھٹکنے نہ پائیں ۔ ابن اثیر نے لکھا ہے :-
"وقصی اول من احداث وقود النار بالمزدلفه وكانت توقد
على عهد رسول الله ومن بعدہ"
(تاریخ کامل-ج2ص18)
"قصی نے سب سے پہلے مزدفلہ میں آگ جلانے کا انتظام کیا اور پھر رسول اللہ کے
زمانہ میں اور ان کے بعد بھی روشن کی جاتی
رہی ہے"
آپ سے پہلے حدود مکہ میں مکانات تعمیر نہیں کئے جاتے تھے بلکہ لوگ جھونپڑیاں بنا
کر رہتے تھے آپ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کے قریب ایک گھر تعمیر کیا جس کا دروازہ
خانہ کعبہ کی طرف کھلتا تھا۔ یہ گھر دارالندوہ کے نام سے مشہور ہوا۔ یعقوبی نے تحریر
کیا ہے:-
"بنی دار بمكة وهي اول دار بنیت بمكة وهى دار الندوة " (تاریخ یعقوبی-ج1ص239)
قریش اس گھر کو بڑی عزت و تقدیس کی نظروں سے دیکھتے تھے اورتبرکاً شادی بیاہ کے
رسوم اسی گھر میں انجام دیتے اور قومی و ملی
معاملات طے کرنے اور آپس کے جھگڑے چکانے کے لئے یہیں پر جمع ہوتے اور جنگ کے لئے
نکلتے تو لوائے جنگ یہیں آراستہ کرتے۔ قصی کے وارد مکہ ہونے سے پہلے اہل مکہ لوی ابن غالب کے کنوئیں ایسیرہ اور مرہ ابن کعب کے کنوئیں الروا اور ان جو بڑوں
سے پانی حاصل کرتے تھے جن میں بارشوں کا پانی جمع ہوتا تھا۔ آپ نے اہل مکہ کی
ضرورت کے پیش نظر حدود مکہ کے اندر ایک کنواں کھدوایا جسے عجول کہا جاتا تھا۔ یہ
کنواں اس مقام پر تھا جہاں ام ہانی بنت ابی
طالب کا مکان تھا۔ غرض خانہ کعبہ اور دیگر مشاعر کی تعمیر اولاد فہر کی آباد کاری
اور ان کے سود و بہبود کے سلسلہ میں جو کارنامے انجام دیئے وہ ان کی عظمت اور غیر
معمولی کارکردگی کی روشن مثال ہیں۔ جب تک ان کے قائم آثار باقی ہیں ان کا نام بھی
زندہ و پائندہ ہے۔
ان تعمیری یادگاروں کے علاوہ ان کے کلمات کو بھی سرمایہ و حکمت و دانش سمجھ کر
محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ کلمات صرف دوسروں ہی کو روشنی نہیں دکھاتے بلکہ ان کے آئنہ
میں خؤد ان کے اخلاق و عادات اور طرز زندگی کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے
حکیمانہ کلمات میں سے چند کلمے یہ ہیں :-
"من اشرك ليما
اشركه في لومه و من استحسن قبیما نزل الی قبحه و من لو تصلحه الكرامة اصلحه الهوان
ومن طلب فوق قداره استحق الحرمان والحسوھالعدو الخفی " (سیرت حلبیہ-ج1ص13)
"جو کسی ذلیل و کمینہ آدمی کا ہمنوا ہوگا وہ اس کے کمینہ پن میں شریک ہوگا۔
جو برائی کو اچھی نظروں سے دیکھے گا وہ برائی میں مبتلا ہوگا۔ جس کی احترام و
اکرام سے اصلاح نہ ہو اس کی درستی تذلیل و تحقیر کے ذریعہ ہوگی ۔ جو اپنی حیثیت سے
زیادہ کا طلبگار ہوتا ہے وہ محرومی کا حقدار قرار پاتا ہے۔ حاسد چھپا ہوا دشمن
ہے"
زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :-
"اجتنبوا الخمرۃ فانھا تصلح الا بدان و تفسد
الاذھان" (سیرت حلبیہ-ج1ص13)
"شراب سے پرہیز کرنا۔ اگرچہ اس سے جسموں کی اصلاح ہوتی
ہے مگر عقل و شعور کو تباہ کر دیتی ہے"
آپ نے سنہ 480عہ میں مکہ مکرمہ میں وفات
پائی اور کوہ حجون کے دامن میں دفن ہوئے۔ عرب نے اپنے محبوب فرمانروا اور عظیم
محسن کا بڑا سوگ منایا اور ان کی قبر کی زیارت کر کے اظہار عقیدت کرتے۔ بلاذری نے
لکھا ہے:-
"لما مات دفن بالحجون فکانوا یزورون قبرہ و
یعظمونہ" (انساب
الاشراف-ج1ص152)
"جب انہوں نے وفات پائی تو کوہ حجون میں دفن ہوئے لوگ ان کی قبر کی زیارت کو
آتے اور ان کی عظمت کا اعطراف کرتے"۔
عبد مناف ابن قصی :- آپ کا اصل نام مغیرہ اور کنیت ابو عبد شمس تھی حسین صورت کی
وجہ سے قمر البطحا، جود و سخا کی وجہ سے فیاض اور عظمت و شرف کی وجہ سے السید کے
لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ خانہ کعبہ کی کلید داری کے عہدہ پر اگرچہ قصی کا بڑا
بیٹا عبد الدار فائز تھا مگر قریش کی سر براہی عبد مناف کے پائے نام
ہوئ۔ی بلکہ وہ اپنے حسین عمل اور بلند اخلاق کی بدولت اپنے والد قصی کی زندگی ہی میں
قومی قیادت کے منصب پر فائزہ اور سیادت سے ہمکنار ہو چکے تھے۔
دیار بکری نے لکھا ہے :-
"ساد عبد مناف في حياة ابيه وكان مطاعا فی قریش" (تاریخ خمیس-ج1ص156)
"عبد مناف اپنے باپ کی زندگی ہی میں امارت پر فائز ہو چکے تھے اور قریش میں ان کا ہر حکم مانا جاتا
تھا"
آپ اپنے نامور باپ کے طور طریقوں پر گامزن رہے اور ان کے قائم کردہ رفاہی اداروں
کو باقی و برقرار رکھا۔ آپ نے چار فرزند چھوڑے ۔ ہاشم ،مطلب ، عبد شمس اور نوفل ۔ ہاشم اور مطلب کو البدران (دو چاند) کہا جاتا
تھا۔
![]() |
رسول خداﷺ اور امام علی ؑ کا سلسلہ نسب |