نسب و خاندان

 

 مفتی جعفر حسین کی کتاب "سیرت امیرالمومنین جلد اول" سے اقتباس مضمون "نسب و خاندان"

نسب و خاندان کی اہمیت اور نسب شناسی
یہ قانون فطرت نا قابل انکار ہے کہ اصل کے خصوصیات فرع کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور ہر انسان آبائی موثرات کی پیداوار اور اپنے اسلاف کی شکل و شمائل کا ورثہ دار ہوتا ہے چنا نچہ ہر فرد کے خدو خال میں اس کے آباؤ اجداد کے خطوط و نقوش کی جھلک کم و بیش پائی جاتی ہے۔ اگر چہ عام نگا ہیں خط و خال کی باریکیاں نہیں دیکھ سکتیں مگر قیافہ شناس نگا ہیں جسم کی ساخت، چہرہ کے خطوط، اندازہ تنظیم اور حرکات و سکنات کے آئینہ میں بہت سی حقیقتیں دیکھ لیتی اور انہیں کسی کے آباؤ اجداد اور قوم و قبیلہ کی تشخص میں قطعا کوئی دشواری نہیں ہوتی خصوصا سرزمین عرب کے بعض قبائل ژرف نگاہی و باریک بینی میں نمایاں امتیاز اور قیافہ شناسی میں حیرت انگیز دستگاہ رکھتے تھے اور پہلی ہی نظر میں بھانپ لیتے تھے کہ کون کس باپ کا بیٹا اور کس خاندان کی فرد ہے۔ چنانچہ قبیلہ بنی لہب و بنی مدلج کی قیافہ شناسی کے سلسلہ میں صاحب مستطرف نے تحریر کیا ہے کہ اگر کسی بچے کے بارے میں شبہ ہوتا تو اسے بنی مدلج  کی کسی فرد کے سامنے پیش کیا جاتا وہ ایک نظر بچے پر اور ایک نظر متعدد آدمیوں پر ڈال کہ فوراً بتا دیتا کہ فلاں اس بچے کا باپ ہے اور دونوں کے خاندانی علامات اور مشترکہ خطوط کی نشاندہی کر دیتا۔ ایک مرتبہ ایک تاجر زادہ اونٹ پر سوار ہو کر اس قبیلہ کی طرف سے گزرا۔ اس قبیلہ کے ایک شخص نے اسے اور اس کے غلام کو جو آگے آگے چل رہا تھا دیکھا تو کہا کہ یہ سوار اس غلام سے کسی قدر مشابہ ہے۔ اس سوار نے یہ الفاظ سنے تو اپنے متعلق شبہ میں پڑ گیا اور دل میں ایک خلش لئے گھر پہنچا اور اپنی ماں سے اس واقعہ کا تذکرہ کر کے تحقیق حال کی تو معلوم ہوا کہ اس باپ کا بیٹا نہیں ہے جس کی طرف منسوب ہے بلکہ اسی غلام کا بیٹا ہے اور اس کی ماں کی خیانت نے اسے جنم دیا ہے۔ یونہی زید اور ان کے فرزند اسام مسجد نبوی میں سرمنہ ڈھانپنے لیٹے ہوئے تھے کہ مجززا بن امور مالی کا ادھر سے گزر ہوا اس نے ان دونوں کے کھلے ہوئے پیروں کو دیکھ کر کہا یہ باپ کے پیر ہیں اور یہ بیٹے کے۔ حالانکہ وہ ان دونوں کی شخصیت اور ان کے باہمی رشتہ سے بے خبر تھا۔ صرف پیروں کو دیکھ کر معلوم کر لیا کہ ان میں ایک باپ ہے اور ایک بیٹا۔
نسب کی وراثت کا فطری قانون
 یہ قانون فطرت صرف انسانوں ہی میں کار فرما نہیں ہے بلکہ نباتات و حیوانات میں بھی جاری ساری ہے چنانچہ آسٹریلیا کے ایک پادری مینڈل نے نبات و حیوان پر تجربات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے مٹر کے لانبے اور چھوٹے قد والے پودوں کے زردانوں کو ملا کر بیچ تیار کیا اور جب انہیں بویا تو یہ دیکھا کہ سو میں پچھتر لانبے اور پچیس چھوٹے قد والے پودے اگ آئے ہیں۔ اسی طرح اس نے جانوروں پر بھی تجربہ کیا اور ایک سفید مرغ کو جس پر خال نما سیاہ دھبے تھے ایک سیاہ رنگ کی مرغی سے ملایا اور اس کے انڈے سے بچہ نکلوایا وہ بچہ نیلے رنگ کا مرغ نکلا۔ پھر اس نیلے رنگ والے مرغ کو دوسری مرغی سے ملا کر انڈے حاصل کئے۔ ان انڈوں میں سے جو بچے نکلے ان میں سے دو نیلے رنگ کے مرغ تھے ایک سیاہ رنگ کی مرغی اور ایک سفید مرغ تھا جس پر ویسے ہی خال نما سیاہ دھبے تھے جیسے پہلے مرغ پر تھے ۔ اس نباتی و حیوانی تجربہ سے اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ نسلی خصوصیت ایک نسل میں دب بھی جائے تو اگلی نسل میں ضرور ابھر آتی ہے۔
 یہ مماثلت صرف شکل و صورت نک سک اور نوک پلک ہی میں نہیں ہوتی بلکہ اولاد خو خصلت اور افتاد و نہاد کے لحاظ سے بھی اپنے اسلاف کی آئینہ دار ہوتی ہے اور ان کے طبعی خصائل وہ شمائل اس کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ چنا نچہ علوم جدیدہ نے تجزیہ وتحقیق کے بعد بتایا ہے کہ عورت ومرد کے تخم امتزاج سے بننے  والا خلیہ دار جسم اور اس کے ذرات لونیہ جن سے دوسرے خلیوں کی تخلیق ہوتی ہے آباؤ اجداد کے طبعی خصائص و اوصاف ساتھ لے کر آتے ہیں۔ ان خلیوں میں سے ہر خلیہ کے اندر چھیالیس ہزار کروموسومز ہوتے ہیں جو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انہیں عام خورد بینوں سے دیکھا نہیں جا سکتا اس چھوٹے سے کرو موسوم کے اندر کم از کم تیس ہزار جینز ہوتے ہیں اور یہی جینز آبائی و خاندانی اثرات کو اولاد کی طرف منتقل کرتے ہیں اس اعتبار سے شکم مادر ہی میں آبائی خط و خال کے ساتھ آبائی خصوصیات کے نقوش بھی ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جب نو مولود دنیا میں آتا ہے تو وہ نہ صرف جسمانی لحاظ سے بلکہ ذہنی ساخت کے اعتبار سے بھی اپنے والدین اور اسلاف سے مشابہ ہوتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد اس کے ہاتھ پیر کی حرکتیں اسی  ذہنتی قوت کی تحریک کا نتیجہ ہوتی ہیں جسے وہ ماں باپ سے ورثہ میں لے کر آتا ہے یہ واضح رہے کہ جو صفات کسب تحصیل سے تعلق رکھتے ہیں جیسے علوم و فنون اور حرفت و صنعت کاری وغیرہ وہ اولاد کو وراثت میں نہیں ملتے بلکہ صرف فطری و طبعی خصائص و صفات کی تکمیل مناسب ماحول اور مناسب تربیت کے زیر اثر ہوتی ہے اور مناسب ماحول یا طبعی استعداد ہی نہ ہو تو وہ صفات دب جاتے ہیں۔ لیکن آگے بڑھ کر پوتوں پڑو توں یا ان کی اولاد میں کہیں نہ کہیں ضرور ابھر آتے ہیں۔ بشرطیکہ ماحول اور گردو پیش کے نامناسب حالات نے آبا و اجداد کی طرف سے منتقل ہونے والی قوت و استعداد کو بیگانگی و بے تعلقی کی حد تک ختم نہ کر دیا ہو۔

خاندانی اثرات نسل میں جاری

اس توارث صفات کی بنا پر اگرکسی کے آباؤ اجداد مذموم وناپسندیدہ صفات کے حامل ہوتے ہیں تو اولاد بھی برے اثرات سے خالی نہیں رہ سکتی۔ اور اگر کسی کے اسلاف بلند ملکات و اعلیٰ صفات کے مالک ہوتے ہیں تو اولاد کی شخصیت کے تعمیری عناصر میں ان صفات کی اثر اندازی و کار فرمائی بھی ضروری ہے لہذا کسی شخصیت کو پر کھنے اور جانچنے میں اس کے اسلاف کے صفات و خصائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہی کے خصائص وصفات کی روشنی میں اس کے ذہنی و فکری رجحان  کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔   اور جس شخص کا آبائی سلسلہ اندھیر میں ہو اس کی فطری صلاحیت اور طبعی رجحان کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ من لم یوت النسب لم يعرف الناس جو نسب سے واقف نہیں ہے 
وہ انسان کے صحیح خدو خال نہیں پہچان سکتا۔

مواد سے پہلے اشتہارات

مواد کے بعد اشتہارات