شادی جوان نسل کی نجات کا ذریعہ

استاد محترم آغا سید جواد نقوی حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ کی محبوب محافل و مجالس میں سے ایک مجلس و تقریب ِعقدِ نِکاح ہے۔ اس کے فضائل میں سے ہے  کہ یہ تقریب جب  تک منعقد رہتی ہے اللہ کی رحمتیں تسلسل کے ساتھ اس محفل  و مجلس اور اس کے شرکاء کو شامل رہتی ہیں اور ایک اس کی خوبی یہ ذکر کی گئی ہے کہ، جو بھی حاضرین ہوں اس تقریب کے اندر جو دُعا شرکاء دل میں رکھتے ہیں خداوند تبارک و تعالیٰ اس تقریب کے طفیل وہ دعا مستجاب فرماتا ہے۔

تقریب ِنِکاح میں کچھ چیزیں واجب ہیں نِکاح کے لیئے، جیسے "رِضا "ہے زوج  و زوجہ کی اس عقد کے متعلق کہ لازمی ہے اس کے بغیر نِکاح نہیں ہوتا۔ اگر چہ  پاکستان میں رائج ہے کہ بڑے زبردستی کر دیتے ہیں لیکن عقد نہیں ہوتا  جب تک زوج و زوجہ اس عقد پر راضی نہ ہوں۔ اور صِیغہنِکاح ہے جاری کرنا۔ "حقِ مہر" تعین کرنا ہے، حقِ مہر کے بغیر  عقد نہیں ہوتا  اور  ازدواج کا رشتہ منعقد نہیں ہوتا ۔

اور  مُستحبات میں سے ایک مستحب اور مسنون عمل خُطبہ ہے نِکاح کے موقع پر ،جیسے دیگر چند  مواقع پر خُطبات  یا واجب ہیں یا مُستحب ہیں، ان میں سے ایک نِکاح کے موقع پر خطبہ مستحب  ہے۔ کہ خُطبات کا ایک مقصد ہوتا ہے عموما ًخُطبہ بھی ثواب کے لیئے ہی پڑھ دیا جاتا ہےجبکہ خُطبہ ہوتا ہی اس لیئے ہے کہ  گفتگو ہو اور وہ بھی متعلقہ گفتگو ہو اس موضوع کے بارے میں، جمُعہ کا خُطبہ ہو یا عید کا خُطبہ ہو یا نِکاح کا خُطبہ ہو ،جہاں بھی عاقد کے لیئے یا خطیب کے لیئے مقرر کیا گیا ہے یعنی کچھ اس موضوع کے متعلق لوگوں کے سامنے پیش کرے گفتگو پیش کرے یا متعلقہ مسائل بیان کرے۔

ہمارا معاشرہ جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل یہی جوانی کی عمر میں ہے جو ہم روزمرہ مشاہدہ کر رہے ہیں، ہر طرف سے یہ مشکل اور اس کی بازگشت آ رہی ہے  دیکھ رہے ہیں میڈیا اس کو منتقل کر رہا ہے۔ عزیزان شادی ازدواج ہر چند فتویٰ کے لحاظ کہا جاتا ہے کہ سنت ہے و مستحب ہے لیکن بعض اوقات واجب ہو جاتی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت جو جوانان ہیں وہ اس مرحلہ پر نہ پنہچے  ہوئے  ہوں،  جب عملی صورت حال  انسان دیکھتا ہے۔
ازدواج کا مقصد انسان کی زندگی کی تکمیل ہے اور ایمان کی تکمیل و تتمیم ہے، لیکن  ازدواج انسان کی انسانی    خصوصیت بھی جو انسان کو لازمی ہے اس کے مطابق یہ اقدام کرنا ضروری ہے۔ اور وہ ہے انسان کا غریزہ،  زوج و زوجہ دونوں بحیثیت انسان اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر کچھ ایسی خصوصیات رکھی ہیں عورت اور مرد کے اندر جو دیگر جانداروں کے اندر بھی ہیں اور یہ ضرورت ہے۔
ازدواج انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ مقصد ازدواج کا عرض کیا ہے کہ حیات انسانی کی تکمیل، جس طرح روایات کے اندر ہے اور علماء کے بیانات کے اندر بیان ہوا ہے۔ لیکن ایک بنیادی ضرورت انسان کی اس حِس کی تسکین بھی ہے جو ہر ایک جاندار کے اندر انسان کے اندر موجود ہے جانداروں کے اندر بھی موجود ہے جس کے مطابق عورت مرد ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ یعنی انسان جب بالغ ہوتا ہے بلوغ کی عمر کو پنہچتا ہے، بلوغ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر ایک نئی حس پیدا ہوتی ہے جو بلوغ سے پہلے نہیں ہوتی  اور وہ انسان   کی جنسی حس  ہے ۔ اصطلاح کے مطابق اس کو اشتہا یا شہوت کہا جاتا ہے یہ ہر انسان کے اندر موجود ہے، ہر جاندار کے اندر موجود ہے لیکن انسان کے اندر دیگر جانداروں کی نسبت ذرا مختلف ہے دیگر جانداروں کے اندر یہ احساس یہ حس ان کے غریزہ کے تابع ہے لیکن انسان کے اندر غریزہ بھی ہے اور غریزہ کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ اور انسان کی فکر سے بھی اس کا تعلق قائم ہے ۔اس لیئے باوجود  اس کے کہ جانوروں میں بھی یہ چیز  موجود ہے لیکن جانوروں میں غریزی طور پر کہیں طبیعی طور پر کنٹرول شدہ ہے آپ کسی بھی جانور کو نہیں دیکھیں گے وہ اس حس کے اظہار میں بے راہ روی کا شکار ہو گیا ہو ،جانور  بے قابو ہو گیا ہو اور اس کے لیئے جانور کے لیئے یا اس کے  ہم نوع کے دیگر حیوانات کے لیئے وہ  اذیت کا باعث بن گیا ہو۔ جبکہ انسان میں یہی حس بعض اوقات اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے  کہ جو انسان کے اپنی ذات کے لیئے بھی اور انسان کے ماحول کے لیئے بھی بہت تباہ کن اثرات چھوڑتی ہے ۔

اس وقت ہم جس تہذیب میں رہتے ہیں اس تہذیب کے اندر  کمی ہے خامی ہے جس کو میں اکثر عرض کرتا ہوں کے  ایک طرح کی منافقت پائی جاتی ہے تہذیب کے اندر۔ منافقت اس کو کہتے ہیں جہاں دو چہرے ہوں، دو شکلیں ہوں ایک دکھانے کی ہو اور پیچھے ایک اصلی چہرہ و شکل ہو، اس تہذیب کے اندر دو چہرے ہیں ایک چہرا ہے جو ہم عموما  دکھاتے ہیں ایک  دوسرے کو اور ایک اس تہذیب کا اصلی چہرا ہے۔ جو دکھاتے ہیں وہ شرمیلہ سا  چہرا ہے شرمیلی تہذیب ہے ہماری ایسی تہذیب ہے کہ جس میں جوان اپنے ماں باپ کو کہہ بھی نہیں سکتا کہ میری شادی کراؤ اگر کہہ بھی دے تو ماں باپ کو بہت برا لگتا ہے اور ماں باپ اس کو کہتے ہیں بے حیا بے شرم۔ مثلاً بیس سال کا جوان ہے پچیس سال کا جوان ہے اور بعض اوقات تیس سال کا بھی ہو گیا ہے اگر اور اگر اپنی  زبان سے کہہ دے کے  شادی کی ضرورت ہے مجھے میری شادی کراؤ تو ماں باپ چڑ جاتے ہیں یہ ظاہری چہرا ہے اس کا اس کو حیا و شرم کے تانے دیتے ہیں۔لیکن اگر یہ جوان نہ کہے ماں باپ کو کہ میری شادی کراؤ اور اپنی تسکین کے لیئے حرام کام کر رہا ہو، گناہ کر رہا ہو اور ماں باپ کےعلم میں بھی ہو اور روز گلہ بھی آتا ہو ان کا کہ آپ کا جوان آج یہ حرکت کر رہا تھا آپ کا جوان یہ عمل انجام دے رہا تھا تو وہاں پر کہہ دیتے ہیں کہ بچہ ہے جوان ہے ہو جاتا ہے۔ وہاں ان کو علم ہے کہ اس کی ضرورت ہے ازدواج  کا نام لے تو کہتے ہیں شرم کرو حیا کرو ابھی تمھاری عمر  ہی کیا ہے تمھاری تعلیم مکمل نہیں ہوئی تم نے نوکری نہیں کی تنخواہ نہیں بنی تمھاری گاڑی نہیں تمھارے پاس گھر نہیں تمھارے پاس لیکن انھیں دوسری طرف پتا بھی ہوتا ہے کہ یہ آلودہ ہو رہا ہے یہ تباہ ہو رہا ہے اور یہ غلط حرکتیں انجام دے رہا ہے حرام کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس طرف کوئی توجہ و دھیان نہیں دیتے ۔ اگر جوان لڑکی گھر کے اندر  نام لے لے کہ میری شادی کرا وتو اس کی سزا موت ہے اس تہذیب میں کہ لڑکی ہوکر کہہ رہی ہے کہ میری شادی کراو۔

یہ اس تہذیب کا ظاہری چہرہ ہے جوبہت ہی با حیا اور بہت ہی  شرمیلہ ہے ۔لیکن اس تہذیب کا ایک اندرونی باطن ہے جو بہت آلودہ ہے کہ اس وقت ہم نہیں کہہ سکتے کسی کے بارے میں مطمئن وثوق سے گواہی دے سکیں ہ کہ جو جوان شادی شدہ نہیں ہے کہ یہ ابھی تک سالم ہے یہ (گناہ  کا) مرتکب نہیں ہوا، اس نے  ابھی تک عفت و حیا اپنی محفوظ رکھی ہوئی ہے اپنا ایمان محفوظ رکھا ہوا ہے حتیٰ متدین گھرانوں میں ،مذہبی گھرانوں میں۔  مذہبی گھرانوں میں بھی مشکل  اتنی ہے جتنی دوسرے گھرانوں میں ہے ،بے دین گھرانوں  میں ہے۔ بے دین گھرانوں میں کیوں کہ پابندی نہیں ہے کوئی حد نہیں ہے اس لیئے وہاں آزادی ہے وہ آسانی سےحرام طریقہ سے تسکین کر لیتے ہیں۔ مذہبی گھرانوں کے اوپر ظاہری ایک پڑدہ پڑا ہوتا ہے تو وہ چھپ کے مخفی طریقہ سے یہ کام کرتے ہیں۔

آج کی جوان نسل ، یہ نسل جو حاضر ہے، جو موجود  ہےنسل  بہت ہی خوش قسمت ہیں اور بہت ہی خوش نعمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جتنی اس نسل حاضر کے لیئے ہیں اتنی کہیں تاریخ بشر میں نہیں تھی۔ اور اسی طرح اس کی مشکلات بھی سب سے زیادہ ہیں اس کے مصائب بھی سب سے زیادہ ہیں اوہ وہ یہ کہ   اس طرح شہوت   انگیزی ،اشتعال انگیزی تاریخ بھر میں  کبھی بھی کسی  بشری معاشرے میں نہیں تھی جس طرح اس نسل کے اوپر یلغار ہے۔ ہر چیز خصوصا یہ چند وسائل جو جدید  ٹیکنالاجی نے جوانوں کے اختیار میں اور نوجوانوں کو  دے دیے ہیں اس نے اور زیادہ جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے شہوت کی آگ کی طرح ہے  اور اس تہذیب کے اندر جو مناظر ہیں وہ آگ میں تیل ہے جس سے شعلہ ور ہوتی ہے شہوت انسان کی۔ ایک طرف سے یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں  ہےیہ سرمایہ دار دنیا کے کنٹرول میں ہے کہ انہوں نے ٹیلیکام سروسز اور باقی ٹیکنالاجی کی مدد سے ہر چیز کھول کہ ہر ایک کی دسترس میں قرار دی ہے عورتیں مرد بچے جوان حتیٰ اس کے اثرات یہ ہیں کہ اس وقت بلوغ کی عمر وہ نہیں ہے جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ ۱۵ سال کا لڑکا بالغ ہوتا ہے لیکن آپ کہہ سکتے ہیں اس وقت کہ  اکثریت ۱۵ سال سے پہلےبالغ ہو جاتے ہیں۔
ایک والد آئے اور پریشانی کے عالم میں انہوں نے کہا کہ میں بہت تعجب کرتا ہوں کے میرا  بیٹا
۱۲ سال کی عمر میں بالغ ہوگیا ہے تو میں نے کہا کہ آپ بےخبر ہیں آپ کے بیٹے نے مجھے بتایا ہے کہ میں ۱۱ سال کی عمر میں بالغ ہو گیا ہوں خود ان کے بیٹے نے مجھے بتایا کہ میں اس عمر  سے بالغ ہوں اور والد اس پہ گھبرا رہے تھے کے ایک سال بعد بیٹے نے بتایا کہ میں ایک سال پہلے سے بالغ ہوں والد گھبرا رہے ہیں کہ یہ ابھی اس سال میں بالغ ہو گیا ہے چھوٹی عمر میں۔ اسی طرح ایک اور محترمہ آئیں ان کا بچہ نابالغ عمر کے لحاظ سے یعنی معمول کے لحاظ سے تو وہ یہی گھبراہٹ میں سوال کیا کہ بچہ بالغ ہو گیا ہے میرا چھوٹا ہے ابھی دس گیارہ سال کا ہے بالغ ہو گیا ہے۔ یہ عمومیت رکھتی ہے یہ چیز ہم اسے عموما بیان نہیں کرتے نا مجالس میں نا تعلیم و تربیت میں نا اساتذہ ڈر سے اس بات کو نا والدین  والدین اس موضوع پر بات ہی نہیں کرتے۔ 
عزیزان ازدواج اصل راہ حل ہے ۔اشتعال انگیزی کو نہیں روکا جا سکتا ٹیکنالاجی کو پابندی نہیں لگائی جا سکتی  یہ وسائل جو جوانوں کے پاس ہیں اسے نہیں روکا جا سکتا یہ یلغار ہے ایک  سیلاب ہے  یہ تو رہے گا ان کے پاس لیکن اس کے بعد جو پیدا ہونے والی حالت ہے اور عمومی حالت ہے  سب کے اندر بچوں کے اندر بچیوں کے اندر عمومی حالت ہے اس کا راہ حل ازدواج ہے۔

شادی جوان نسل کی نجات کا ذریعہ
شادی جوان نسل کی نجات کا ذریعہ

یہ اقتباس پی ڈی ایف میں ڈؤنلوڈ کریں


مواد سے پہلے اشتہارات

مواد کے بعد اشتہارات